سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عورت كى عدت كب شروع ہوگى اور كيا بيوى كى رضامندى كے بغير خاوند رجوع كر سكتا ہے

149353

تاریخ اشاعت : 14-03-2011

مشاہدات : 6234

سوال

ميرى سولہ برس سے شادى شدہ ہوں، ہمارے اختلافات بہت زيادہ ہوگئے جن كى بنا پر يہ شادى قائم ركھنا مشكل ہو گئى، كيونكہ ميں نے اپنے خاوند ميں فسق و فجور اور دين سے دورى كى بہت سارى اشكال ديكھيں...
اور كئى برس قبل طلاق ہوگئى، اور اس كے بعد عدت ميں رجوع بھى ہوا، اور تقريبا ايك ہفتہ قبل ميرے خاوند نے الفاظ بولے اور طلاق دے دى اور يہ دوسرى طلاق تھى، اور اب پھر وہ اپنى عادت كے مطابق رجوع كرنا چاہتا ہے.
ليكن اس بار ميں پورى شدت سے انكار كر رہى ہوں، اور ميں نے آخرى فيصلہ اس وقت كيا جب ميں نے ديكھا وہ ميرے ساتھ برا سلوك كرتا اور مجھے زدكوب كرتا ہے، اور ميرى توہين بھى، اس كے علاوہ گھر كے اخراجات بھى نہيں ديتا چاہے وہ كھانے كے ہوں يا لباس كے يا پھر بچوں كے تعليمى اخراجات.
اس كے علاوہ وہ مالى قرض جس كے حصول كے ليے اس نے اپنى بجائے مجھے دستخط كرنے پر مجبور كيا وہ بھى ادا نہيں كرتا، اس سب كچھ سے قبل يہ سب كچھ ہمارے دين حنيف كى تعاليم سے واضح ہے.
اس ليے ميں نے يہ فيصلہ كيا ہے كہ ميں اس كے پاس واپس نہيں جاؤنگى، اور وہ رجوع پر بہت زيادہ اصرار كر رہا ہے ليكن ميں نہ جانے پر مصر ہوں، اب ميں خاوند كے گھر ميں بچوں كے ساتھ رہتى ہوں، اور اس سے پردہ كرتى ہوں اور اس كے سامنے نہيں ہوتى.
سوال يہ ہے كہ: عدت كيسے شمار كى جائيگى، يہ علم ميں رہے كہ آخرى بار ازدواجى تعلقات ميرے آخرى بار حاملہ ہونے كے وقت ہوئے تھے، اور چھ ماہ قبل بچہ كى ولادت بھى ہو چكى ہے، اس وقت سے ليكر اب تك ازدواجى تعلقات قائم نہيں ہوئے، ميں عدت كيسے شمار كروں ؟
ميں اس خاوند كے پاس واپس نہيں جانا چاہتى، ميں نے جو كچھ اس شادى ميں ديكھا اور پايا ہے اس كى بنا پر ميرا يہ پختہ فيصلہ ہے، ميں دوبارہ ايسے شخص كے ساتھ ازدواجى تعلقات كبھى نہيں ركھنے پر راضى نہيں ہو سكتى..
مجھے يہ بتائيں كہ كيا خاوند بيوى كى مرضى كے بغير صرف اكيلا خود ہى بيوى سے رجوع كر سكتا ہے كيا اس كے ليے بيوى كى رضامندى كے بغير اسے واپس لانا جائز ہے، كيا اس كے ليے صريح قول يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى كى موافقت كے بغير رجوع كرنا جائز ہے ؟
اور كيا اس حالت ميں اگر ميں واپس جانے يا جماع سے انكار كر دوں تو كيا گنہگار اور عاصى كہلاؤنگى ؟
اور اگر اس كے ليے يہ كچھ جائز ہے تو پھر شرعى طريقہ كيا ہے جو اختيار كر كے ميں اس شادى كو ختم كر سكوں، كيونكہ مجھے اس سے توہين اور براے سلوك كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوا، برائے مہربانى مجھے معلوما فراہم كريں اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اس كا كوئى شرعى طريقہ بتائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر عورت حيض كى حالت ميں ہو تو اس كى عدت تين حيض ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور طلاق والياں تين حيض تك انتظار كريں البقرۃ ( 228 ).

عدت كى ابتدا طلاق ہونے كے وقت سے ہوگى، اس ليے جب عورت تيسرے حيض سے پاك ہو جائے تو اس كى عدت ختم ہو جائيگى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 12667 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

مرد اپنى بيوى سے دوران عدت رجوع كرنے كا مالك ہے، اور اس كے ليے بيوى كى رضامندى شرط نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور طلاق والياں اپنے آپ كو تين حيض تك روكے ركھيں، انہيں حلال نہيں كہ اللہ نے ان كے رحم ميں جو پيدا كيا ہو اسے چھپائيں، اگر انہيں اللہ پر اور قيامت كے دن پر ايمان ہے، ان كے خاوند اس مدت ميں انہيں لوٹا لينے كے پورے حقدار ہيں، اگر ان كا اراہ اصلاح كا ہو، اور عورتوں كے بھى ويسے ہى حق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ، ہاں مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب ہے حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).

اور ان كے خاوندوں كو اس عدت ميں انہيں لوٹانے كا پورا حق حاصل ہے .

يعنى عدت ميں مرد اپنى بيوى سے رجوع كرنے كا حق ركھتا ہے، اس ميں دليل ہے كہ خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا پورا حق حاصل ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ اس ميں خاوند كى مراد اصلاح ہو، نہ كہ وہ بيوى كو تكليف و اذيت دينے كے ليے رجوع كرے.

قول كے ساتھ بھى رجوع ہو جائيگا، اور فعل مثلا رجوع كى نيت سے جماع كرنے سے بھى رجوع ہو جاتا ہے.

سوم:

جب آپ كا خاوند آپ سے رجوع كر لے اور آپ اس خاوند كے برے سلوك اور قلت دين كى بنا پر خاوند كے ساتھ رہنے كو ناپسند كرتى ہوں تو آپ كے ليے طلاق طلب كرنا جائز ہے، يا پھر خلع طلب كر ليں، اور اگر وہ ايسا كرنے سے انكار كرے تو آپ عدالت سے رجوع كريں تا كہ وہ آپ كا معاملہ سنے اور فيصلہ كرے اور ضرر كى بنا پر خاوند كو طلاق دينے كا كہے، يا پھر اسے خلع كرنا لازم كرے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 26247 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ تعالى سے عاجزى و انكسارى كے ساتھ كثرت سے دعا كيا كريں، اور نيك و صالح اعمال سے اللہ كا قرب حاصل كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے، اور آپ دونوں كو خير و فلاح اور كاميابى كى توفيق دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب