ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

خاوند اور گھر والوں كى لاعلمى ميں اجازت كے بغير بيوى اپنا ذاتى اور قيمتى مال صدقہ كر سكتى ہے

151187

تاریخ اشاعت : 23-12-2010

مشاہدات : 4754

سوال

ميرے پاس قيمتى اشياء ہيں جن ميں سے كچھ صدقہ كرنا چاہتى ہوں، ليكن مجھے اپنے گھر والوں اور خاوند كى جانب سے خطرہ ہے كہ وہ مجھے باتيں كريں گے، ميں نے خفيہ طور پر صدقہ كرنے كا بھى سوچا ليكن مجھے خدشہ ہے كہ جب وہ مجھے پوچھيں گے تو ميرے ليےمشكلات پيدا ہوں گى.
كيونكہ وہ كہتےہيں كہ ميں ابھى چھوٹى ہوں اور مال كى اہميت نہيں جانتى اور نہ ہى مجھے اس ميں تصرف كرنا آتا ہے خاص كر جب انہيں علم ہو گا كہ ميں اپنى قيمتى چيز صدقہ كر دى ہے تو وہ اور بھى سٹپٹائيں گے.
ميں يہ قيمتى چيز صدقہ كرنا چاہتى ہوں، اور مجھے كوئى سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں كيا كروں، كيا خفيہ طور پر صدقہ كر دوں جو كچھ ہوگا ديكھا جائيگا، يا آپ كوئى اس سلسلہ ميں مجھے كوئى نصيحت كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب عورت بالغ اور عقلمند و رشد والى ہو تو دين اسلام اسے مستقل طور پر مالى ذمہ فراہم كرتا ہے، اگر وہ اپنےمال ميں بہتر تصرف كرنا جانتى ہے تو اسے تصرف كرنےكا حق حاصل ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے ميں سے يتيموں كو سدھارتے اور آزماتے رہو حتى كہ جب ان ميں تم ہوشيارى اور حسن تدبير پاؤ تو انہيں ان كے مال سونپ دو النساء ( 6 ).

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى صحيح بخارى ميں فرماتے ہيں:

عورت كا اپنے خاوند يا مالك كے بغير كسى دوسرے كو ہبہ كرنے جبكہ اسكا خاوند ہو تو اس وقت جائز ہے جب عورت بے وقوف نہ ہو، اور اگر بے وقوف ہے تو پھر جائز نہيں اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم بےوقوفوں كو اپنے مال مت دو .

انتہى.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتےہيں:

" جمہور علماء كرام كا قول بھى يہى ہے، ليكن طاؤس نے مخالفت كرتے ہوئے مطلقا منع كيا ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ خاوند كى اجازت كے بغير ايك تہائى سے زائد دينا جائز نہيں ہے چاہے وہ عقل و رشد والى بھى ہو، اور ليث رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: قليل سى چيز كے علاوہ مطلقا جائز نہيں، جمہور علماء كے كتاب و سنت سے بہت سارے دلائل ہيں " انتہى

امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ نے ميمونہ بنت حارث رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" انہوں نے وليدہ كو آزاد كيا ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت نہ لى، جب ان كى بارى آئى جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس رات بسركرتےتھے تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ كو معلوم ہے كہ ميں نے اپنى لونڈى آزاد كر دى ہے؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم نے واقعى ايسا كيا ہے ؟

تو انہوں نے عرض كيا: جى ہاں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" اگر تم اپنے ماموؤں كو ديتى تو يہ تمہارے ليے زيادہ اجروثواب كا باعث تھا "

حديث نمبر ( 2592 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 999 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں خاوند كى اجازت كے بغير اپنا مال صدقہ كرنے كا جواز پايا جاتا ہے " انتہى

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خرقى رحمہ اللہ كى كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ: ہوشياء اور عقل و رشد ركھنے والى عورت كو اپنے مال ميں تصرف كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے وہ صدقہ كرے يا عوض ميں دے "

امام احمد رحمہ اللہ سے ايك روايت يہى ہے، اور امام ابو حنيفہ اور اما شافعى اور ابن منذر رحمہم اللہ كا مسلك بھى يہى ہے.

اور امام احمد كى دوسرى روايت يہ ہے كہ: عورت كو ايك تہائى سے زيادہ ميں خاوند كى اجازت كے بغير تصرف كرنے كا حاصل نہيں ہے، اور اما مالك كا بھى يہى قول ہے.

ہمارى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

اور اگر تم ان ميں رشد و ہوشيارى ديكھو ت وانہيں ان كا مال سونپ دو .

اور يہ ان كے تصرف كو ميں ركاوٹ ختم كرنے كا ظاہرى حكم ہے، اور انہيں تصرف كرنے كا مطلقا بيان ہے، اور پھر يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عورتوں كى جماعت صدقہ كيا كرو، چاہے اپنے زيور ميں سے ہى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1466 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1000 ).

اور پھر صحابيات نے صدقہ بھى كيا ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو اس كى كوئى تفصيل معلوم كى اور نہ ہى سوال كيا.

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى زينب اور ايك دوسرى عورت جس كا نام بھى زينب ہى تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صدقہ كرنے كے بارہ ميں دريافت كرنے آئيں كہ آيا ان كا اپنے خاوندوں اور يتيم بچوں پر صدقہ كرنا جائز ہے ؟ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1462 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1000 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان عورتوں كے ليے تو يہ شرط ذكر نہيں كى..... اور اس ليے بھى كہ عورت اہل تصرف ميں شامل ہوتى ہے، اور بيوى كے مال ميں خاوند كا كوئى حق نہيں ہے، اس ليے وہ اسے اپنے سارے مال ميں تصرف كرنے سے نہيں روك سكتا اور اس پر پابندى نہيں لگا سكتا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 399 - 400 ).

ليكن اگر عورت يہ سمجھے كہ خاوند كى اجازت كے بغير ايسا كرنے سے مشكلات پيدا ہونگى، اور خاص كر جب عورت اپنا قيمتى مال صدقہ كرنے كا عزم ركھتى ہو تو پھر اسے نرم رويہ كے ساتھ خاوند سے اجازت لينى چاہيے، اور اس ميں اسے شرعى حكم بھى بيان كرنا چاہيے كہ اسے حق حاصل ہے كہ وہ اپنے مال ميں سے جو چاہے صدقہ كر سكتى ہے؛ اسے اجازت لينى چاہيے تا كہ خاوند اور بيوى ميں حسن معاشرت قائم رہے اور مشكلات پيدا نہ ہوں.

ايسا بھى ہو سكتا ہے كہ عورت كى رائے سے خاوند كى رائے زيادہ صحيح اور افضل ہو، اس ليے آپس ميں مشورہ كرنا بہتر اور افضل ہے.

امام نسائى رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا: كونسى عورتيں بہتر ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب خاوند اسے ديكھے تو وہ اسے خوش كر دے، اور جب اسے حكم دے تو وہ اس كى اطاعت كرے، اور نہ تو اپنے نفس اور نہ ہى اپنے مال ميں اس كى مخالفت كرے جسے وہ ناپسند كرتا ہو "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3231 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب