الحمد للہ.
اول:
اگر گانے موسیقی کیساتھ ہوں تو پھر گانا گانا اور سننا حرام ہے، چاہے مرد کی آواز میں ہو یا عورت کی آواز میں ، اور چاہے اس گیت کا تعلق محبت، مذہب یا ترغیب دلانے سے ہو، حرام گانوں میں سے صرف دف کیساتھ گایا جانے والا گیت ہی مستثنی ہے جو کہ شادی بیاہ، عید اور کسی کی طویل عرصے بعد واپسی کی خوشی میں گائے جائیں ۔
اس چیز کا بیان پہلے سوال نمبر: (5000)، (20406) اور (43736) کے جواب میں تفصیل کیساتھ گزر چکا ہے۔
اور اگر گانے میں موسیقی تو شامل نہ ہو لیکن نوجوان لڑکی مردوں کے سامنے گائے تو یہ حرام ہے، اور اگر مرد گائے تو گانے کے بول اچھے ہونے کی صورت میں جائز ہو گا، جیسے کہ موسیقی سے خالی اسلامی ترانے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی ان ترانوں اور گانوں کو ہر وقت سنتے رہنا بھی مناسب نہیں ہے۔
متعدد اہل علم نے موسیقی سننے کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے، اس کیلیے آپ سوال نمبر: (107572 ) اور (78223) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
اپنے کام یا ورزش کے دوران ایسے گانے سنے جن کا حکم حرام بیان کیا گیا ہے تو وہ شخص گانے سننے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا، تاہم اس کا اثر اس کے کام یا ورزش پر نہیں ہوگا، یعنی اگر کسی شخص نے اپنے گاہک کو جائز پروگرامنگ کر کے دی اور اس سے پیسے کمائے تو یہ حلال مال ہے، کیونکہ یہ پیسے جائز کام یعنی پروگرامنگ سے کمائے گئے ہیں ۔
ویسے عقلمند شخص اپنے وقت کو مفید کاموں میں صرف کرنے کی سوچتا ہے، لہذا ذکر الہی میں مشغول رہنا یا قرآن مجید کی تلاوت سننا ، یا ورزش کے دوران مفید گفتگو سننے سے دسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں نیکیاں ملیں گی، جبکہ موسیقی اور گانے سننے سے سینکڑوں گناہ ملیں گے اور ساتھ میں وقت ضائع بھی ہو گا، حالانکہ اسی وقت میں کوئی نیکی کا کام بھی کیا جا سکتا تھا۔
اور تلاوت قرآن یا ذکر سے دل کی اصلاح ہوتی ہے، نفسیاتی طور پر سکون ملتا ہے، کیا اب بھی رحمانی کلام اور شیطانی کلام میں موازنہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی ہے؟
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ : اللہ تعالی آپ کے دل کو منور فرمائے، گناہوں کو دھو ڈالے، آپ کو اطاعت میں مصروف رکھے اور قرب الہی کا باعث بننے والے اعمال کرنے کی توفیق دے۔
واللہ اعلم.