الحمد للہ.
زکاۃ اس شخص پر فرض ہوگی جو اس وقت فصل کا مالک تھا جب دانہ پک کر سخت ہو گیا تھا اور شرعاً زکاۃ واجب ہونے کا وقت آ چکا تھا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حبوب (اناج) میں زکاۃ واجب ہونے کا وقت وہ ہے جب دانہ سخت ہو جائے، اور پھل میں اس وقت جب اس کی پختگی ظاہر ہو جائے۔ پس اگر اس وقت سے پہلے کوئی شخص اپنی کھیتی یا پھل بیچ دے تو اس پر زکاۃ نہیں ہوگی، کیونکہ اس نے زکاۃ واجب ہونے سے پہلے ہی اس میں تصرف کر لیا، جیسے کہ اگر کوئی شخص اپنے مویشی سال مکمل ہونے سے پہلے ذبح کر دے یا بیچ دے تو اس پر زکاۃ نہیں ہو گی۔" ختم شد
المغنی:( 2/300)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جس وقت دانہ سخت ہو جائے اور پھل کی پختگی ظاہر ہو جائے تو اسی وقت زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔ اس کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ اگر زکاۃ واجب ہونے سے پہلے ملکیت منتقل ہو جائے، تو سابقہ مالک پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی، بلکہ وہ اس شخص پر فرض ہو گی جس کے پاس ملکیت منتقل ہوئی ہو۔ مثلاً اگر زمین کا مالک زکاۃ واجب ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو اس پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی، بلکہ ورثاء پر ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی نے وہ کھیت یا درخت بیچ دیا جس پر ابھی زکاۃ فرض نہیں ہوئی تھی، تو زکاۃ خریدار کے ذمہ ہو گی، کیونکہ فروخت کنندہ نے وجوبِ زکاۃ سے پہلے ہی اس کو اپنی ملکیت سے نکال دیا ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع:( 6/80)
چنانچہ اگر بیچنے والے نے وہ کھیت اس وقت فروخت کیا جب دانہ ابھی سخت نہیں ہوا تھا (یعنی زکاۃ واجب ہونے کا وقت نہیں آیا تھا)، تو زکاۃ خریدار پر ہو گی، کیونکہ وجوبِ زکاۃ کے وقت وہی اس کا مالک تھا۔ لیکن اگر بیچنے والے نے فصل اس وقت فروخت کی جب دانہ سخت ہو چکا تھا، تو زکاۃ فروخت کنندہ پر واجب ہو گی، کیونکہ زکاۃ اس کے ذمے لازم ہو چکی تھی، اور بیچنے کے بعد وہ اس ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتا۔
واللہ اعلم