جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

امام كے ساتھ كچھ تراويح ادا كر كے وتر پڑھ كر چلے جانا

سوال

ہمارے پڑوس كى مسجد ميں بيس ترايح اور تين وتر ہوتے ہيں، اس ليے كہ اب نماز عشاء تاخير سے ادا كى جائيگى ہم يہ سوچ رہے ہيں كہ جو لوگ نماز تراويح نہيں ادا كرنا چاہتے انہيں ايك قارى تين وتر پڑھا ديا كرے اور قارى صاحب باقى تراويح مكمل كر ليا كريں كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
كيا جو لوگ دس ركعات اور وتر پڑھ كر چلے جاتے ہيں انہيں دوسرے امام كے ساتھ نماز ادا كرنے والوں جتنا ہى ثواب حاصل ہوگا يعنى جنہوں نے تئيس ركعات ادا كى ہيں ؟
برائے مہربانى اس موضوع كے بارہ تفصيلى معلومات فراہم كريں كيونكہ ہم رمضان كے شروع سے ہى اس پر عمل كرنا چاہتے ہيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے نماز تراويح باجماعت ادا كرنےكى ترغيب دلائى اور فرمايا:

" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا گيا تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1327 ) سنن ابوداود حديث نمبر ( 1375 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1605 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1327 ) ابو داود اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ اجروثواب اسے ہى حاصل ہوگا جو امام كى سارى نماز ختم ہونے تك ساتھ رہےگا، ليكن اگر كوئى شخص كچھ نماز ادا كركے چلا جائے تو حديث ميں وارد ثواب كا مستحق نہيں ہوگا يعنى سارى رات كے قيام كا ثواب اسى صورت ميں حاصل ہوگا جب امام كے ساتھ سارى نماز ادا كرے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب كوئى شخص رمضان ميں تئيس ركعات ادا كرنے والے شخص كے پيچھے صرف دس ركعات تراويح ادا كر كےچلا جائے اور امام كے ساتھ پورى نماز مكمل نہ كرے تو كيا اس كا يہ فعل سنت كے مطابق ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

سنت يہى ہے كہ امام كے ساتھ نماز پورى كى جائے چاہے امام تئيس ركعات ادا كرتا ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى امام كے ساتھ اس كے جانے تك قيام كيا تو اللہ تعالى اس كے ليے سارى رات كے قيام كا ثواب لكھتا ہے "

اور ايك روايت كےالفاظ ہيں:

" باقى رات كے قيام كا ثواب "

اس ليے مقتدى كے ليے افضل يہى ہے كہ وہ امام كےجانے تك امام كے ساتھ ہى قيام كرے، چاہے امام گيارہ ركعات ادا كرے يا پھر تيرہ يا تئيس يا اس سے زائد، افضل يہى ہےكہ وہ امام كے جانے تك امام كى اقتدا كرے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 325 ).

اور شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" رمضان المبارك كا قيام رات كے كسى ايك حصہ ميں قيام كرنے سے حاصل ہوتا ہے، مثلا نصف رات يا ايك تہائى چاہے گيارہ ركعات ادا كى جائيں يا پھر تيرہ يا تئيس ركعات، محلے كے امام كے ساتھ اسكے جانے تك قيام كرنےسے قيام الليل كا حصول ہو جائيگا چاہے ايك گھنٹہ سے بھى كم وقت ميں ہو.

امام احمد رحمہ اللہ امام كےساتھ ہى قيام كرتے اور اس كے ساتھ ہى ختم كرتے تھے، اس ليے جو يہ اجروثواب حاصل كرنا چاہتا ہے اسے چاہيےكہ امام كےفارغ ہونے تك قيام كرے حتى كہ وہ وتر سے فارغ ہو جائے، چاہے تھوڑى ركعات ادا كرے يا پھر زيادہ، اور چاہے زيادہ وقت صرف كرے يا تھوڑا " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن جبرين ( 9 / 24 ).

اور اگر مسجد ميں دو امام نماز تراويح پڑھاتے ہوں تو رات كے قيام كا ثواب حاصل كرنےكے ليے دونوں اماموں كے ساتھ تراويح ادا كرنى چاہييں حتى كہ دوسرا امام فارغ ہو جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جس نے پہلے امام كےساتھ نماز تراويح ادا كيں اور چلا گيا وہ كہتا ہے حديث كى نص كےمطابق مجھے پورا ثواب حاصل ہوگا، كيونكہ ميں نے امام كےساتھ شروع كيں اور امام كے ساتھ ہى ختم كر ديں ؟

شيخ كا جواب تھا:

اس شخص كا يہ كہنا كہ جس نےامام كےفارغ ہونے تك امام كے ساتھ قيام كيا تو اس كے ليے پورى رات كا ثواب لكھا جاتا ہے " تو اس كى يہ بات صحيح ہے.

ليكن كيا ايك ہى مسجد ميں دو امام ہوں اور ہر امام مستقل ہو، يا پھر ہر ايك امام دوسرے كا نائب ہے ؟

ظاہر دوسرا احتمال ہوتا ہے ـ ہر ايك دوسرے كا نائب ہے اور اس كے ليے مكمل كرنےوالا ہے ـ اس بنا پر اگر كسى مسجد ميں دو امام نماز تراويح پڑھاتے ہوں تو وہ ايك ہى شمار ہونگے، اس ليے دوسرے امام كے فارغ ہونے تك انسان وہى رہے كيونكہ ہميں يہى علم ہے كہ دوسرى پہلى نماز تكميل ہے.

اس ليے ہم اپنے بھائيوں كو يہى نصيحت كرتے ہيں وہ يہاں حرم ميں آخر تك امام كے ساتھ نماز ادا كريں، اور اگر كچھ بھائى گيارہ ركعات ادا كر كے چلے جاتے ہيں اور كہتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اتنى ركعات ہى ادا كى ہيں، ہم اس مسئلہ ميں اس كے ساتھ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گيارہ ركعات ہى ادا كى ہيں اور يہى افضل ہے كہ گيارہ پڑھى جائيں اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں ہے.

ليكن ميرى رائے ميں اس سے زائد ادا كرنےميں كوئى مانع نہيں، اس بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو تعداد اختيار كى ہے اس سے بےرغبتى كرتے ہوئے نہيں بلكہ صرف اس ليے كہ يہ خير وبھلائى ہے جسميں شريعت نے وسعت ركھى ہے.

ليكن اشكال يہ ہے كہ: اگر ايك ہى رات ميں دو بار وتر پڑھيں جائيں تو مقتدى كيا كرے ؟

ہم يہ كہيں گے كہ: اگر آپ دوسرے امام كے ساتھ تہجد ادا كرنا چاہتے ہوں اور پہلا امام وتر پڑھائے تو آپ ايك ركعت اور پڑھ ليں تا كہ دو بن جائيں، اور اگر آپ رات كے آخر ميں تہجد نہيں پڑھنا چاہتے تو پہلےامام كے ساتھ وتر ادا كر ليں، پھر اگر آپ كے مقدر ميں تہجد ہو اور آپ دوسرے امام كے ساتھ ادا كريں تو دوسرے امام كے ساتھ وتر كو دو بنا ليں " انتہى ملخصا.

ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 13 / 436 ).

تراويح ميں سنت گيارہ ركعات ہى ہيں جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ميں بيان كيا گيا ہے، اس ليےامام اور مقتدى دونوں كو سنت پر عمل كرنا چاہيے، اور يہاں اس مسجد والوں كوچاہيے كہ وہ سنت پرعمل كريں تاكہ نمازيوں ميں اختلاف نہ پيدا ہو، يا پھر وہ ثواب سے محروم نہ ہو جائيں، اگر انہيں كام نہ ہوتا تو وہ اجروثواب كے حريص تھے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كے اعمال صالحہ قبول فرمائے اور اپنى اطاعت پر معاونت كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب