الحمد للہ.
اگر بچے ابھى تميز كى حد تك نہيں پہنچے تو شادى سے پہلے پہلے ماں اپنے بچوں كى زيادہ حقدار ہے، ليكن اگر وہ كہيں آگے شادى كر ليتى ہے تو پھر بچے اپنے باپ كے پاس چلے جائيں گے.
اور اگر بچے تميز كر سكتے ہوں تو بچوں كو ماں اور باپ دونوں ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا حق ديا جائيگا، ليكن يہ اسى صورت ميں ہے جب ماں اور باپ دونوں ہى دين اور عدل و انصاف ميں برابر ہوں، ليكن اگر دونوں ميں سے كوئى ايك برى تربيت اور قليل دين كا مالك ہو تو بچے اسے نہيں ديے جائيں گے؛ كيونكہ بچے كى مصلحت كا اعتبار كيا جائيگا، نہ كہ بچے كى تربيت ميں كوتاہى كرنے والے كى مصلحت كا، احاديث نبويہ بھى اسى پر دلالت كرتى ہيں، اور محقق علماء كرام بھى يہى فتوى ديتے ہيں.
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب عورت نے اپنے بچے كى پرورش كا حق طلب كيا تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" جب تك تم نكاح نہيں كرتى اس كى زيادہ حقدار ہو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2276 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 368 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں اپنے شيخ يعنى ابن تيميہ رحمہ اللہ سے سنا ہے وہ فرما رہے تھے:
" كسى قاضى كے سامنے ماں اور باپ نے اپنے بچے كے بارہ ميں تنازع كيا تو اس قاضى نے بچے كو ماں اور باپ ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا كہا بچے نے باپ كو اختيار كيا تو اس كى ماں قاضى سے كہنے لگى:
بچے سے يہ دريافت كريں كہ اس نے اپنے باپ كو كيوں اختيار كيا ہے، چنانچہ قاضى نے بچے سے دريافت كيا تو بچے نے جواب ديا:
ميرى ماں مجھے روزانہ كاتب كے پاس بھيجتى ہے اور فقيہ مجھے زدكوب كرتا ہے، ليكن ميرا باپ مجھے بچوں كے ساتھ كھيلنے كے ليے چھوڑ ديتا ہے "
تو قاضى نے بچے كو ماں كے سپرد كرنے كا فيصلہ كيا كہ تم باپ سے زيادہ حقدار ہو.
ہمارے شيخ كہتے ہيں:
" جب والدين ميں سے كسى ايك نے بچے كى تعليم اللہ كى جانب سے بچے كے سلسلہ ميں واجب كو ترك كيا تو وہ نافرمان ہے، اسے بچے كى ولايت حاصل نہيں ہوگى، بلكہ جو كوئى بھى بچے كے سلسلہ ميں واجب كى ادائيگى نہيں كرتا اسے بچے پر ولايت حاصل نہيں ہوگى، يا تو بچے سے اس كا ہاتھ اٹھا كر واجب پر عمل كرنے والے پر اس كا قائم مقام بنا ديا جائيگا، يا پھر اس كے ساتھ كسى دوسرے كو ملايا جائيگا جو واجب كى ادائيگى كرے.
مقصد يہ ہے كہ حسب امكان اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرے فرض كريں اگر باپ نے كسى ايسى عورت سے شادى كى جو اس كى بيٹى كى مصلحت كا خيال نہيں كرتى اور اس كى ديكھ بھال نہيں كرتى، ليكن بچى كى ماں اپنى سوكن سے زيادہ بچى كى مصلحت كا خيال اور اس كى ديكھ بھال كرتى ہے تو يہاں بچى كو ماں كى پرورش ميں دينا قطعى ہوگا.
ان كا يہ بھى كہنا ہے:
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ شارع سے كوئى ايسى نص نہيں ملتى جو مطلقا والدين ميں سے كسى كو بھى مقدم كرنے كى دليل ركھتى ہو، اور نہ ہى كوئى ايسى نص ملتى ہے كہ مطلقا والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كيا جائے، علماء اس پر متفق ہيں كہ كسى كو بھى مطلقا متعين نہيں كيا جائيگا، بلكہ ظلم و زيادتى اور كوتاہى كے مرتكب كو نيكى اور عدل و احسان كرنے والے مقدم نہيں كيا جائيگا " واللہ اعلم.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 475 ـ 476 ).
اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چھوٹى بچى كى پرورش كا حق اس كى ماں كو حاصل ہے جب تك وہ شادى نہيں كرتى، يا پھر بچى كى عمر سات برس نہيں ہو جاتى تو بچى كى پرورش كا حق باپ كو اس شرط پر ملےگا باپ كے پاس رہنے ميں بچى كو كوئى ضرر نہ ہو.
ليكن بڑى عمر كى بچى كا حق پرورش باپ كو حاصل ہے، ليكن اگر اس ميں بھى ماں كى سوكن كے ساتھ رہنے ميں نقصان و ضرر ہو تو پھر نہيں "
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 874 ).
واللہ اعلم .