الحمد للہ.
جب كوئى قابل اعتماد مسلمان ڈاكٹر يہ فيصلہ كرے كہ روزہ ركھنا آپ كو نقصان دےگا، اور اس نے آپ كو روزہ نہ ركھنے كى تلقين كى ہے تو مشروع يہى ہے كہ آپ اللہ سبحانہ و تعالى كى رخصت كو قبول كرتے ہوئے اس كى نصيحت پر عمل كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 184 ).
ابن كثير رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:
" يعنى مريض اور مسافر حالت مرض اور حالت سفر ميں روزہ نہيں ركھيں گے؛ كيونكہ اس ميں ان دونوں كے ليے مشقت ہے، بلكہ وہ دونوں روزہ چھوڑ كر دوسرے ايام ميں اس كى قضاء كريں گے " انتہى
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 498 ).
مسلمان شخص كو چاہيے كہ اپنے آپ پر مشقت مت كرے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے روزہ چھوڑنے كى رخصت دى ہے تو وہ اسے قبول كرے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا ہے كہ اس كى رخصت پر عمل كيا جائے، اور وہ اپنى نافرمانى كو پسند نہيں فرماتا "
مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1886 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اگر مريض كا مرض ايسا ہو كہ اسے مرض سے شفايابى كى اميد نہ ہو تو مريض روزہ چھوڑ كر ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دےگا، اور اگر اسے مرض سے شفايابى كى اميد ہو تو وہ روزہ چھوڑ كر شفاياب ہونے كے بعد روزوں كى قضاء كريگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم نے مرض كو دو قسموں ميں تقسيم كيا ہے: وہ مرض جس سے شفايابى كى اميد ہو ايسا مريض روزہ نہيں ركھےگا، اور شفايابى كے بعد وہ چھوڑے ہوئے روزوں كى قضاء كريگا.
اور دوسرى قسم ايسا مرض جس سے شفايابى كى اميد نہ ہو ايسا مريض ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دے گا اور يہ كھانا روزے كے بدلے ميں ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 48 / 216 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك عورت كا رمضان المبارك شروع ہونے سے قبل آپريشن ہوا، اللہ نے آپريشن سے قبل اس عورت كے مقدر ميں روزے نہيں ركھے تھے اور وہ نہ ركھ سكى، آپريشن كے ذريعہ اس كا ايك گردہ مكمل طور پر ختم كر كے دوسرے سے پتھرى نكالى گئى، اور ڈاكٹروں نے اسے مستقل طور پر سارى زندگى روزہ ركھنے سے منع كر ديا، اس عورت كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" جب قابل اعتماد مسلمان ڈاكٹر نے اس عورت كو يہ وصيت كى كہ اسے روزہ نقصان دےگا، تو يہ عورت روزہ چھوڑ دےگى اور ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو نصف صاع چاول يا گندم يا كھجور وغيرہ جو غلہ اس كے علاقے ميں كھايا جاتا ہے دےگى، اور اس كے ليے نقدى روپوں ميں كفارہ ادا كرنا جائز نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 182 - 183 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
ميرے بائيں گردے كا پچھلے رمضان المبارك كے شروع ميں آپريش ہوا اور ميں يہ مہينہ روزہ نہيں ركھ سكا؛ كيونكہ ميں آدھ گھنٹہ بھى پانى كے بغير نہيں رہ سكتا، اور اتنا وقت صبر نہيں كر سكتا ، لہذا مجھ پر اس سلسلہ ميں كيا واجب ہوتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب آپ عاجز ہيں تو آپ پر كوئى حرج نہيں اگرچہ يہ سبب آپ ميں مستقل رہے، اور ڈاكٹر حضرات كا كہنا ہے كہ:
اس تھوڑى سے مدت ميں پانى ضرور پيا جائے، تو آپ پر روزہ ركھنا واجب نہيں، كيونكہ غالب طور پر يہ چيز آپ كے ساتھ ہى رہےگى، اور آپ كو ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ابن عثيمين ( 40 / 216 ).
اس بنا پر اگر آپ كو ڈاكٹر نے بتايا ہے كہ آپ مستقبل ميں روزہ نہيں ركھ سكتے تو آپ كے ليے روزہ نہ ركھنا مشروع ہے، كہ آپ روزہ چھوڑ ديں، اور اس كے بدلے روزانہ ايك مسكين كو كھانا كھلا ديں.
اور اگر مستقبل ميں روزہ ركھنا ممكن ہو تو پھر آپ روزہ چھوڑ ديں اور شفايابى كا انتظار كريں جب اللہ آپ كو شفاياب كر دے تو آپ نے جتنے روزے چھوڑيں ہوں ان كى قضاء ميں روزے ركھ ليں.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 12488 ) اور ( 23296 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .