منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

کیا اپنی بہن کے سفر کے اخراجات اپنے مال کی زکاۃ میں سے شمار کر سکتا ہے؟

154053

تاریخ اشاعت : 30-10-2015

مشاہدات : 2543

سوال

سوال: میں اپنی بہن کو اپنے ملک سے یہاں والدین کیساتھ ملاقات کیلئے بلانا چاہتا ہوں، تو کیا ان کے سفر کے اخراجات میں اپنی زکاۃ میں سے شمار کر سکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے زکاۃ کے  مصارف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن اصناف کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے زکاۃ صرف انہی مصارف میں تقسیم ہو سکتی ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:( فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ) [زکاۃ ان جگہوں میں تقسیم کرنا]اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60] آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے علم و حکمت کا ذکر فرمایا ہے، جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس مسئلے میں ذاتی فہم  یا رائے زنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، نیز اللہ تعالی نے جو تقسیم بیان کی ہے وہ اللہ تعالی کی کمال حکمت و علم  کا نتیجہ ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /1705)

زکاۃ کے مصارف سے متعلق تفصیلی طور پر معلومات کیلئے آپ سوال نمبر: (46209)کا جواب ملاحظہ کریں۔

فقراء اور مساکین  کی ضروریات سے مراد ایسے امور ہیں جو زندگی گزارنے کیلئے اساسی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً: رہائش، کھانا، پینا، وغیرہ اس کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (75892) کا جواب ملاحظہ کریں۔

آپ کی جانب سے اپنی ہمشیرہ کو والدین سے ملاقات کیلئے بلانا آیت میں مذکور زکاۃ کے مصارف میں کسی انداز سے بھی داخل نہیں ہوتا، تاہم کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی: (ابن السبیل) یعنی مسافروں میں آتا ہے، تو یہ غلط ہے، کیونکہ یہاں مسافر سے مراد ایسا شخص ہے جو سفر میں ہے، اس لئے جس شخص نے ابھی تک اپنا سفر ہی شروع نہیں کیا تو اسے "مسافر" نہیں کہا جاتا۔

حجاوی رحمہ اللہ "الاقناع" (1/296) میں کہتے ہیں:
"یہاں مسافر سے مراد وہ شخص ہے جو دوران سفر ہے، اور سفر بھی اچھا ہے [کسی گناہ کیلئے سفر نہیں کر رہا] لہذا جس نے ابھی سفر کی نیت کی ہے اور وہ اپنے علاقے میں ہی ہے تو وہ مسافر نہیں ہو سکتا" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اپنے علاقے میں رہ کر سفر کی نیت کرنے والا شخص مسافر نہیں کہلا سکتا، چنانچہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں مدینہ کا سفر کرنا چاہتا ہوں، اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہم اسے مسافر ہونے کے ناطے زکاۃ کی رقم نہیں دینگے؛ کیونکہ اسے کوئی بھی مسافر نہیں کہتا، لیکن اگر اس نے مدینہ کسی شدید ضرورت کی بنا پر جانا ہے مثال کے طور پر علاج کروانے کیلئے جانا ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اب ہم اسے بطور غریب زکاۃ دے سکتے ہیں، بطور مسافر نہیں دے سکتے"انتہی
"الشرح الممتع" (6 /84)

مذکورہ بالا تفصیل کی بنا پر ان کے سفر کے اخراجات آپ زکاۃ میں شمار نہیں کر سکتے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات