الحمد للہ.
نصف شعبان کی رات جشن منانا جائز نہیں ہے، چاہے یہ جشن اس رات قیام اللیل ، ذکر الہی، یا تلاوت قرآن کی شکل میں ہو، یا کھانا کھلانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کی صورت میں ہو۔
اس لئے کہ صحیح سنت نبوی میں اس رات کو عبادات یا خاص رسم ورواج کیساتھ منسلک کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ چنانچہ نصف شعبان کی رات دیگر راتوں کی طرح ہی ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"لیلۃ القدر ، نصف شعبان کی رات، شبِ معراج، عید میلاد النبی، یا کسی اور رات کی مناسبت سے جشن منانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ تمام امور نئی ایجاد کردہ بدعات میں سے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملتی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا : (جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہے)، چنانچہ اس قسم کی تقریبات قائم کرنے میں مالی تعاون ، تحائف ، اور حاضرین کو چائے پیش کرنا صحیح نہیں ہے، اسی طرح ان تقاریب میں تقاریر اور خطاب کرنا بھی درست نہیں؛ کیونکہ اس سے غیر شرعی تقاریب کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، چنانچہ ان سے روکنا اور شرکت نا کرنا ضروری ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (2 /257-258)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہمارےہاں کچھ رسم ورواج سماجی ورثہ میں شامل ہوچکے ہیں مثال کے طور پر عید الفطر کے دن کیک اور بسکٹ بنانا، ستائیس رجب، اور نصف شعبان کی رات کو دستر خوان پر گوشت، اور پھلوں سے ضیافت کرنا، اور دس محرم یوم عاشوراء کو خاص قسم کی مٹھائیاں تیار کرنے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: "عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر اظہار مسرت وخوشی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کہ شرعی دائرے کے اندر اندر ہو، اس کیلئے کھانے پینے و دیگر اشیا کا اہتمام جائز ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ : (ایام تشریق کھانے ، پینے، اور ذکر الہی کے دن ہیں) ایام تشریق سے عید الاضحی کے بعد تین دن مراد ہیں، کہ ان دنوں میں لوگ قربانی کرتے ہیں، اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اسی طرح عید الفطر کے دن شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اظہار خوشی وشادمانی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
جبکہ ستائیس رجب، یا نصف شعبان کی رات، اور یوم عاشوراء پر اظہار خوشی کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ ان دنوں کی تقریبات سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ اگر کسی مسلمان کو ان تقریبات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو شرکت نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے آپکو دین میں نت نئے کاموں سے بچاؤ؛ کیونکہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے)
رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ معراج کی رات ہے، جس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب گئے تھے، جبکہ اسکی حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اعتبار سے اس کی کوئی مستند دلیل نہیں ہے، چنانچہ جو چیز ثابت ہی نہ ہو تو وہ باطل ہوتی ہے، اسی طرح باطل پر رکھی جانے والی بنیاد بھی باطل ہی ہوگی۔
اگر ہم فرض کر لیں کہ واقعہ معراج اسی رات کو ہوا تھا تو تب بھی ہمارے لئے اس رات کو جشن منانا ، خصوصی طور پر عبادات کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپکے صحابہ کرام سے اس قسم کی عبادات ثابت نہیں ہیں، حالانکہ تمام صحابہ کرام سنت نبوی، اور شریعت کی حفاظت میں سب سے آگے تھے، تو ہمارے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ عہد نبوی، و عہد صحابہ میں غیر موجود خود ساختہ عبادات بنا لیں؟! نصف شعبان کی رات کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عظمت و شان ، اور شب بیداری ثابت نہیں ہے، بلکہ کچھ تابعین نے نماز و ذکر کیساتھ اس رات میں شب بیداری کی تھی، کھانے پینے اور جشن منا کر نہیں کی تھی جیسے عید تہوار میں کیا جاتا ہے"انتہی
ماخوذ از: "فتاوى إسلامية" (4 /693)
واللہ اعلم .