ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

اگر قسم اٹھاتے ہوئے یا نذر مانتے ہوئے ان شاء اللہ کہہ دیا تو کیا حکم ہے؟

سوال

میں نے چار سال پہلے ان شاء اللہ کہتے ہوئے نذر مانی تھی ، میں نے اس وقت کہا تھا کہ: "ان شاء اللہ جب میری ملازمت ہو جائے گی تو میں پورے مہینے کی تنخواہ صدقہ کر دوں گا۔" تو ایسی صورت میں مجھ پر کیا واجب ہے؟ کیونکہ میری تنخواہ میں اب اضافہ بھی ہو گیا ہے، تو اگر مجھ پر ایک تنخواہ صدقہ کرنا واجب ہے تو کیا میں اپنی ابتدائی تنخواہ کے برابر صدقہ کروں گا یا موجودہ تنخواہ کے برابر؟ اور اگر مجھ پر نذر پوری کرنا واجب ہے، اور میں اس سال اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حج بھی کرنا چاہتا ہوں تو پھر میرے لیے کیا بہتر ہے؟ نذر پوری کروں یا حج کروں؟ واضح رہے کہ میرے پاس فیملی کے ہمراہ حج کرنے کے لیے پیسے تو ہیں لیکن رقم اتنی نہیں ہے کہ میں نذر بھی ساتھ میں پوری کر سکوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ، اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ آپ نے کہا تھا: "ان شاء اللہ جب میری ملازمت ہو جائے گی تو میں پورے مہینے کی تنخواہ صدقہ کر دوں گا۔" اس کا تعلق قسم سے ہے نذر سے نہیں ہے، اور جب قسم اٹھانے والا قسم اٹھاتے ہوئے اپنی قسم کو مشیئت کے ساتھ معلق کر دے تو پھر قسم توڑنے پر کفارہ لازم نہیں ہوتا؛ کیونکہ اس نے قسم توڑی ہی نہیں ہوتی، یہی معاملہ نذر کا بھی ہوتا ہے، لہذا اگر آپ کچھ بھی صدقہ میں نہ دیں تو آپ پر کچھ نہیں ہے۔

جیسے کہ "زاد المستقنع" میں ہے کہ:
"اور جو شخص قابل کفارہ یمین میں ان شاء اللہ کہے تو وہ حانث نہیں ہو گا۔"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں:
"قابل کفارہ یمین کا مطلب یہ ہے کہ: ایسی یمین جس کو توڑنے پر کفارہ دیا جا سکتا ہو، مثلاً: اللہ کی قسم اٹھانا، نذر ماننا، اور ظہار تو ان تینوں چیزوں میں کفارہ ہے، لہذا اس لفظ سے طلاق اور عتق دونوں میں کفارہ نہیں ہے۔
لہذا کوئی شخص قابل کفارہ یمین میں ان شاء اللہ کہے تو وہ حانث نہیں ہو گا، یعنی اس پر کفارہ لازم نہیں ہو گا اگرچہ وہ قسم توڑ دے۔
مثلاً: اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے کوئی کہے: اللہ کی قسم اگر اللہ نے چاہا تو میں یہ لباس نہیں پہنوں گا، پھر وہی لباس پہن بھی لے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا تھا۔ اور اگر کہے: اللہ کی قسم !میں آج کے دن یہ لباس ان شاء اللہ ضرور پہنوں گا، لیکن دن گزر گیا اور لباس نہ پہنا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص کوئی قسم اٹھائے اور ان شاء اللہ بھی کہے تو اس پر کفارہ نہیں ہے ۔۔۔)

نذر کی مثال میں کوئی کہے: اگر اللہ تعالی نے میرے مریض کو شفا دے دی ان شاء اللہ میں نذر پوری کروں گا۔ چنانچہ ایسی صورت میں اگر وہ نذر پوری نہیں کرتا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کہے، میں اللہ کے لیے نذر مان رہا ہوں کہ ان شاء اللہ فلاں سے بات بھی نہیں کروں گا۔ لیکن پھر بات کر لے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع (15/ 139)

آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"اگر کوئی اپنی نذر کو اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ معلق کرے اور کہے: میں اللہ کے لیے یہ نذر مان رہا ہوں کہ ان شاء اللہ فلاں کام کروں گا۔ تو اس کا حکم یہی ہے کہ اس میں کفارہ نہیں ہو گا۔
اور اگر جس کام کی نذر مانی ہے وہ اچھا عمل تھا تو ہم دیکھیں گے کہ اگر ان شاء اللہ کہہ کر تعلیق مقصود تھا، تو اس پر کچھ نہیں ہو گا، اور اگر ان شاء اللہ کہہ کر برکت حاصل کرنا اور تحقیق مقصود تھا تو اس پر وہ اچھا عمل کرنا لازم ہو گا، یعنی اس کی نیت پر منحصر ہو گا۔" ختم شد
الشرح الممتع (15/ 221)

ایسی نذر جس کا حکم یمین والا ہوتا ہے اس سے مراد ایسی نذر ہے جس میں: کسی چیز کی تصدیق مقصود ہو یا کسی چیز کی تکذیب مقصود ہو، یا کسی کام سے منع کرنا، یا کسی کام کی ترغیب دلانا مقصود ہو۔ ایسی نذر کو نذرِ لجاج یا غضب بھی کہتے ہیں۔

جبکہ ایسی نذر جسے نذرِ اطاعت کہتے ہیں اگر یہ نذر مانتے ہوئے ان شاء اللہ کہا تو دیکھا جائے گا: اگر نذر ماننے والا ان شاء اللہ کہہ کر اپنے کام کو اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ معلق کر رہا ہے تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہو گا۔ اور اگر ان شاء اللہ کہہ کر ذات باری تعالی سے برکت یا اپنی بات میں وزن ڈالنا مقصود ہو تو ایسی نذر کو پورا کرنا لازم ہے۔

یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ آپ نے جو الفاظ کہے ہیں یہ یمین کے زمرے میں آتے ہیں نذر کے زمرے میں نہیں ہے، اس لیے ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے یہ یمین پوری نہ کرنے کی صورت میں بھی آپ پر کچھ لازم نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب