سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے متعلق ضعیف احادیث

155350

تاریخ اشاعت : 09-11-2015

مشاہدات : 21621

سوال

سوال: میں نے آپکی ویب سائٹ پر فتاوی پڑھے ہیں جس میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو بدعت کہا گیا ہے، لیکن خوب تلاش کے بعد مجھے اس موضوع پر درج ذیل احادیث ملی ہیں:
1- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بندہ اپنے دونوں ہتھیلیاں ہر نماز کے بعد پھیلا کر کہے: "یا اللہ! یا الہی! اے ابراہیم، اسحاق، یعقوب کے الہ، اے جبریل ، میکائیل اور اسرافیل کے الہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری دعا قبول فرما، میں بہت لاچار ہوں، مجھے میرے دین کے بارے میں تحفظ عطا فرما، بیشک میں آزمائش میں مبتلا ہوں، مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ دے، کیونکہ میں بہت گناہگار ہوں، میری غربت مجھ سے مٹا دے کیونکہ میں بہت ہی مسکین ہوں" تو اللہ تعالی پر حق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی مت لوٹائے) اس روایت کو ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلہ" صفحہ: (38) میں ذکر کیا ہے۔
2- عبد اللہ بن زیبر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی نماز مکمل ہونے سے پہلے دعا کیلئے دونوں ہاتھ اٹھا لیے، چنانچہ جب وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو اسے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فراغت پانے سے پہلے دعا کیلئے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے"
اس روایت کو طبرانی نے معجم میں بیان کیا ہے، اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے صحیح کہا ہے۔
3- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، آپ اس وقت قبلہ رخ تھے، آپ نے فرمایا: ( یا اللہ! کمزور مسلمانوں کو مشرکوں کی قید سے آزاد فرما) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے۔
اس روایت کو ابن ابی حاتم اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نے ذکر کیا ہے۔
4- ابو وداعہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور تنگی کا اظہار ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسا نہیں کریگا، اس کی نماز ناقص ہے) سنن ابو داود، سنن ابن ماجہ
ان احادیث کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال میں ذکر شدہ کسی بھی حدیث کی سند ثابت نہیں ہے، اس کا تفصیلی بیان یہ ہے:

پہلی حدیث: جسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے۔

اسے ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلہ" صفحہ: 137 میں  بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں مجھے احمد بن حسن  بن ادیبویہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں  ہمیں ابو یعقوب اسحاق بن خالد بن یزید بالسی  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد العزیز بن عبد الرحمن بالسی نے  انہوں نے خصیف سے، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی۔

اور یہ  روایت انتہائی ضعیف ہے، جس کی وجہ عبد العزیز بن عبد الرحمن ہے، اس کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:
امام احمد:  "اس کی احادیث مٹا دو، یہ سب جھوٹ ہیں" یا انہوں نے کہا: "خود ساختہ ہیں"
ابن حبان : "اسے کسی صورت میں بھی حجت نہیں بنایا جاسکتا "
مزید کیلئے دیکھیں: " العلل " (5419)  اسی طرح : " لسان الميزان " (5267)

دوسری حدیث : جسے عبد اللہ بن زیبر  سے روایت کیا گیا ہے
اسے طبرانی نے "معجم الکبیر"(14/266) میں روایت کیا ہے، اس کی سند یہ ہے:  ہمیں حدیث بیان کی سلیمان بن  حسن عطار نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ابو کامل  جحدری نے، وہ کہتے ہیں ہمیں  حدیث بیان کی فضیل بن سلیمان نے وہ کہتے ہیں  کہ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن ابی یحیی ۔۔۔
یہ سند بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:

1- محمد بن ابی یحیی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان  انقطاع ہے، کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ محمد نے ابن زبیر سے سنا ہی نہیں ہےاس لیے کہ محمد بن ابی یحیی کی وفات 144 ھ میں ہے، اور عبد اللہ بن زبیر کی وفات 72 ھ میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر  نے "التهذيب" (5/310) میں یہ کہا ہے کہ : محمد بن ابی یحیی  کی ایک روایت کی نسبت عبد اللہ  بن زبیر  یا کسی اور صحابی سے کی جاتی ہے، پھر ابن حجر نے یہ بالجزم کہا ہے کہ  محمد بن ابی یحیی  تابعین سے ہی روایت  کرتا ہے، پھر  کچھ تابعین کے نام ذکر بھی کیے۔
اس سے یہ بات مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ سند میں انقطاع ہے، اور کچھ راویوں نے درمیان میں سے راوی کو گرا دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کی سند میں محمد بن ابی یحیی اسلمی اور  عبد اللہ بن زبیر کے درمیان انقطاع ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء " (ص/440)

2- فضیل بن سلیمان کو بہت سے ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے، مثلاً:  ابن معین، عبد الرحمن بن مہدی، نسائی، اور دیگر ائمہ کرام۔
انکی گفتگو جاننے کیلئے  دیکھیں: "تهذيب التهذيب" (4/481)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب "تقريب التهذيب" (5462) میں علمائے کرام کی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے ضعیف ہی لکھا ہے، چنانچہ کہا: " صدوق له خطأ كثير " [یہ راوی صدوق ہے لیکن اس کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں] انتہی

اور فضیل بھی  سلیمان  کی کچھ روایات کو امام بخاری کی جانب سے اپنی صحیح  میں  جگہ دینا ، اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ امام بخاری اس کی روایات کو خوب چھان پھٹک کر ، دیگر روایوں کی طرف سے شواہد کی موجودگی میں قبول کرتے تھے۔
دیکھیں:  "منهج الإمام البخاري في تصحيح الأحاديث وتعليليها" از: ابو بکر کافی(ص/154)

تیسری حدیث:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد  اپنے دونوں ہاتھ  اٹھائے، آپ اس وقت  قبلہ رخ تھے، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ولید بن ولید، عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام، اور لاچار کمزور مسلمانوں کو مشرکین کے چنگل سے آزاد فرما)
اس روایت کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر: (3/1048) میں اس سند کیساتھ  نقل کیا ہے:  ابن ابی حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے ابو معمر المنقری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الوارث نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے علی بن زید نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے یہ روایت نقل کی۔

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مرکزی راوی  علی بن زید بن جدعان ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ایک وقتی اور عارضی عمل تھا،  آپکا مستقل طریقہ کار نہیں تھا،  [یہ بات واضح ہے کہ ]دونوں میں فرق  ہوتا ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء" (ص/443)

چوتھی حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں  تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور  تنگی کا اظہار  ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسا نہیں کریگا، اس کی نماز  ناقص ہے) سنن ابو داود (1296)

حدیث کی سند  ضعیف ہے، اس میں عبد اللہ  بن نافع  راوی ہے، جس کے بارے میں علی بن مدینی  کہتے ہیں: "یہ راوی مجہول ہے"
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب (3682) میں بھی یہی کہا ہے۔

اسی راوی کی وجہ سے  البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو  ضعیف ابو داود میں  ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: " ضعیف ابو داود – اصل [اصل  سے مراد "الام" ہے]" (2/52)

مندرجہ بالا تفصیل سے واضح  ہوگیا کہ  سوال میں  ذکر کردہ   احادیث ثابت نہیں ہیں، اور اگر ان میں سے کسی حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرض نمازوں کے بعد دعا عارضی  اور وقتی ضرورت کی  وجہ سے فرمائی تھی ، آپ مستقل طور پر  ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں فرماتے تھے۔

مزید وضاحت کیلئے آپ سوال نمبر: (21976) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب