اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مالک اگر ملازمین کو حج کیلئے چھٹی نہ دے تو کیا یہ حج کی تاخیر کیلئے عذر بن سکتا ہے؟

155378

تاریخ اشاعت : 01-12-2013

مشاہدات : 5602

سوال

حج کے دنوں میں ہمارے ہاں کام کا بہت زیادہ زور ہوتا ہے اسی وجہ سے مالک مجھے سفر کیلئے چھٹی نہیں دیتا ، اور اگر بلا اجازت چلا گیا تو غالب گمان یہی ہے کہ مجھے دوبارہ کام کیلئے جگہ نہیں ملے گی، تو کیا یہ فریضہ حج کی تاخیر کیلئے عذرہے؟اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے جلد ہی حج کا موقعہ دے گا، ان شاء اللہ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

راجح قول کے مطابق صاحبِ حیثیت پر فوری حج کرنا ضروری ہے، اور اسے اسلام کے عظیم ترین رکن کی ادائیگی کیلئے تاخیر کی اجازت نہیں ہے، ہم اس سے پہلے سوال نمبر (41702) میں بیان کرچکے ہیں ، آپ اسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔

کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ مسلمان کے پاس زادِ راہ ، سواری ، اور راستہ بھی پر امن ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود حج کیلئے کچھ رکاوٹیں آجاتی ہیں جن کی وجہ سے انسان حج نہیں کر پاتا، تو ایسی صورتِ حال میں وہ معذور ہوگا، مثال کے طور پر، بیوی بیمار ہے، یا والد قریب المرگ ہے، یا ملکی سطح پر حکومت کی جانب سے خاص تعداد حج کی ادائیگی کیلئے مقرر کی جاتی ہے، اور قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی وجہ سے اسے حج پر جانے کا موقعہ نہیں ملتا، یا اسکی عمر غیر مناسب ہے، اسکے علاوہ کچھ اور اسباب بھی ہیں جنکی وجہ حج کی ادائیگی میں تاخیر ایسے لوگوں کی طرف سے بھی ہوسکتی ہےجو سواری، زادِ راہ کے مالک ہوں راست بھی پر امن ہو۔

چنانچہ ان لوگوں کا شمار معذور لوگوں میں ہوگا، جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے۔

ظاہر یہ ہی ہے کہ حکومتی یا پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمین کو حج کیلئے چھٹی نہ ملنا ان ملازمین کیلئے عذر ہے، اور ان پر شرعی طور پر جائز ملازمت چھوڑ کر حج پر جانا بھی ضروری نہیں ہے، لیکن ملازم ہر سال حج کیلئے درخواست کرتا رہے، اور حج کی ادائیگی کیلئے پوری کوشش کرے، چاہے تنخواہ سے کٹوتی کے بعد اسے چھٹی لینی پڑی بشرطیکہ کہ اہل خانہ کے نان و نفقہ پر اسکا اثر نہ پڑے۔

دائمی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:

میں حج تمتع کے ارادے سے رمضان میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں ! تو مجھ پر حج تک کیا لازم آتا ہے؟ میں ملازم ہوں اور ملازمت سے صرف اور صرف حج کے دنوں میں یا رمضان میں عمرہ کی غرض سے آسکتا ہوں، تو کیا میرے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا درست ہوگا؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"رمضان میں عمرہ کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے، لیکن اسے آپ حج تمتع کا عمرہ نہیں بنا سکتے ، اس لئے کہ جس عمرے کو حج تمتع کیلئے شمار کیا جاسکتا ہے وہ عمرہ حج کے مہینوں میں کرنا ضروری ہے، اور وہ ہیں: شوال، ذو القعدہ، اور ذو الحجہ کے پہلے دس دن، پھر اسی سال حج کرنا بھی ضروری ہے"

دوسری بات:

اگر بات ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ذکر کی کہ حج یا عمرہ کیلئے آپ کام نہیں چھوڑ سکتے تو آپ کیلئے کام چھوڑنا جائز نہیں ہے، آپ اپنے ادارے سے لازمی اجازت لیں۔

شيخ عبد العزيز بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفيفی ، شيخ عبد الله بن غديان ، شيخ عبد الله بن قعود۔

" فتاوى اللجنۃ الدائمۃ " ( 11 / 163 ، 164 )

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

اگر انسان اپنی ملازمت کی وجہ سے حج کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر کوئی حرج والی بات نہیں؛ اس لئے کہ وہ بیت اللہ کی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن میں بہت سے بھائیوں سے سنتا ہوں کہ جن عسکری اور فوجی افراد کی ڈیوٹی مکہ لگتی ہے ، تو انہیں حج کی اجازت دے دی جاتی ہے، تو اگر آپ کو اجازت مل جائے تو حج کریں آپ پر کچھ بھی لازم نہیں آئے گا، اور اگر آپ کو اجازت نہ ملے تو آپ صاحبِ استطاعت نہیں ہیں، اور اس لئے آپ پر حج کرنا فرض بھی نہیں ہے۔

" لقاء الباب المفتوح " ( 92 / سوال 8 )

ایسے ہی شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ پوچھا گیا:

"میں اس ملک میں صرف حج کرنے کی نیت سے آیا تھا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں حج کرنے چلا جاتا ہوں تو مالک مجھے اپنے پاس کام نہیں کرنے دے گا، میں اسوقت سعودی عرب میں ہوں، اور مناسک حج مجھ سے بالکل تھوڑی مسافت پر ہیں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالی میرے کفیل کو ہدایت دے اور وہ میرے حج کرنے پر راضی ہوجائے، لیکن اگر وہ اجازت نہیں دیتا تو کیا میں اپنی نیت کے مطابق حج ادا کرچکا ہوں یا نہیں؟ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اعمال کا دارو مدار نیت ہوتا ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جسکی اس نے نیت کی) تو کیا یہ حج کیلئے استطاعت میں شمار ہوگا، برائے مہربانی وضاحت فرمادیں، اور ہمارے بھائیوں اور کفیلوں کو ترغیب دلائیں کہ وہ اپنے پاس موجود افراد کو حج کرنے کی اجازت دے دیں"

تو آپ رحمہ اللہ نے کہا:

"ہم تمام کفیلوں کیلئے تمنا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے بھائیوں کو فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے اجازت دے دیں، اس لئے یہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون ہے، جسکا اللہ تعالی نے ہمیں حکم بھی دیا ہے، اور فرمایا:

( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ) المائدة/2

ترجمہ: نیز نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، گناہ اور سرکشی کے کاموں میں نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے۔

اور ہو سکتا ہے کہ حج کی اجازت دینے کی وجہ سے ان کے کاروبار اور رزق میں برکت ڈال دی جائے، کیونکہ ان دس دنوں میں اگر کاروبار بند بھی رہتا ہے تو اللہ تعالی باقیماندہ کاروبار میں برکت ڈال سکتا ہے، جس سے انہیں بہت سے نفع حاصل ہونے کی امید ہے، اگر اجازت دے دیں تو یہ ہماری خواہش ہے، اور کفیلوں سے ہم اسی کی امید کرتے ہیں۔

اور اگر اجازت نہ ملے تو اس مزدور کو صاحبِ استطاعت نہیں سمجھا جائے گا، اور اس سے حج ساقط ہوگا، اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

( مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ) آل عمران/97

ترجمہ: جو اسکے گھر کی طرف جانے کی استطاعت رکھے۔

اور اسکے پاس ابھی استطاعت نہیں ہے۔

باقی رہا سائل کا کہنا : کہ کیا یہ اسکی طرف سے حج شمار ہوگا؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ: نہیں؛ حج شمار نہیں ہوگا ، لیکن اس سے ساقط ہوجائے گا یہاں تک کہ وہ صاحبِ استطاعت ہو جائے، چنانچہ اگر وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا تواس معاملے میں اللہ کا نافرمان نہیں ہوگا، اس لئے حج صرف اور صرف استطاعت پر ہی واجب ہوتا ہے" انتہی

"مجموع فتاوى شيخ ابن عثيمين" (21/62)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب