ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص کی نقدی، زمین، اور کاروباری شراکت ہے، اس میں سے زکاۃ کیسے ادا ہوگی؟

156008

تاریخ اشاعت : 23-06-2015

مشاہدات : 12562

سوال

برائے مہربانی جلد از جلد میری زکاۃ کی مقدار کے بارے میں مدد فرمائیں، تفصیلات یہ ہیں:
1- میرے پاس تقریبا 3150 ریال نقدی ہے، جو کہ میں نے یونیورسٹی کی جانب سے ملنے والے ماہانہ وظیفہ میں سے بچائے ہیں۔
2- میرے پاس زمین ہے جسے میں نے قریب ہی میں 45000 ریال میں فروخت کرنےکیلئے پیش کردیا ہے، لیکن سوال تحریر کرنے تک فروخت نہیں ہوئی۔
3- دو ساتھیوں کیساتھ میری تجارتی شراکت داری ہے، جس میں سامان کے فیکٹری ریٹ کے مطابق میرا حصہ 60000 ریال ہے۔
4- میں نے اپنی زکاۃ ادا کرنے کیلئے 25 شعبان کا وقت مقرر کیا ہوا تھا، لیکن سفر اور اس سال نئے وسائل آمدنی جنکا پہلے ذکر ہوچکا ہے کی وجہ سے میں نے وقت مقررہ پر اپنی زکاۃ ادا نہیں کی۔
شیخ صاحب! سے میری درخواست ہے کہ مجھے مندرجہ ذیل سوالا ت کے جوابات عنائت فرمائیں۔
1- کیا زکاۃ لیٹ کرنے کی وجہ سے مجھے کوئی گناہ ہوگا؟
2- زکاۃ کی مد میں مجھے کتنی رقم دینی پڑے گی؟
3- کیا مجھے اپنے ذاتی مال (نقدی رقم+ زمین)اور مشترکہ تجارت کے مال کو الگ الگ کرنا پڑے گا؟
4- اگر میرے پاس نقد رقم زکاۃ ادا کرنے کیلئے کافی نہ ہو تو میں کیا کروں؟ (یعنی اگر مجھے مذکورہ بالا تمام اشیاء کی زکاۃ ادا کرنی پڑتی ہے تو مجھے اپنے پاس موجود نقد رقم سے زیادہ رقم کی ضرورت ہوگی) اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سے دعا ہے کہ آپکے تمام نیک اعمال کو شرف قبولیت سے نوازے، اور آپکو مزید توفیق اور سیدھے راستےپر قائم رکھے۔ [آمین]

آپکے علم میں ہو کہ زکاۃ عبادات میں سے ایک عبادت ہے، اور آپ زکاۃ کو کسی انتہائی  سخت عذر یا شرعی وجوہات کی بنا پر ہی وقت مقررہ سے مؤخر کرسکتے ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"زکاۃ فوری ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، چنانچہ استطاعت اور طاقت کے باوجود  اسکی ادائیگی میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، امام شافعی بھی اسی بات کے قائل ہیں۔۔۔ اور اگر کسی رشتہ دار یا انتہائی ضرورت مند فرد تک زکاۃ پہنچانے کی غرض سے تھوڑی بہت تاخیر کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر بہت زیادہ تاخیر ہوتو جائز نہیں ہے"
" المغنی " ( 2 / 539 )

چنانچہ آپ کیلئے ضروری یہ تھا کہ آپ جلد از جلد اپنے مال کی زکاۃ ادا کرتے، اور اس میں تاخیر نہ کرتے، اللہ سے امید ہے کہ وہ ہماری اور آپکی خطاؤں سے درگرز اور معاف فرمائے، اس لئے ہم آپکو جلد از جلد زکاۃ ادا کرنے کے بارے میں کہیں گے، اور آپ سے یہ بھی امید رکھیں گے کہ آپ رمضان میں زکاۃ ادا کرنے کی غرض سے زکاۃ کو مؤخر نہیں کرینگے! اسکے بارے میں آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ زکاۃ رمضان میں ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، اور ہم نے یہ مسئلہ سوال نمبر: (13981) کے جواب میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

دوم:

آپکا مال شرعی نصاب یعنی (595) گرام چاندی کے برابر ہوجائے اور اس پر ایک مکمل ہجری سال گزرنے کی صورت میں آپ پر زکاۃ واجب ہوگی، چنانچہ آپ سال مکمل ہونے پر حاصل شدہ نفع سمیت پورے مال کی زکاۃ ادا کرینگے۔
جبکہ جو مال آپکو تنخواہ وغیرہ یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہو اسکی زکاۃ کے لئے آپ الگ سے سال شمار کرینگے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ آپ یکبار سارے مال کی ایک ہی دفع میں زکاۃ ادا کریں چاہے مال میں اضافہ نفع کی وجہ سے ہو ہو یا کسی اور ذریعہ سے، آپکو اس بارے میں تفصیلات سوال نمبر:  ( 100570) ، ( 50801 ) ، اور  ( 93414 )میں ملے گی۔

اور مال میں زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہوتی ہے، یعنی 2.5٪ ۔

اور اگر آپ اپنے سارے مال کی زکاۃ ادا کرنا چاہتے ہیں تو اسکی تفصیل درج ذیل ہے:

*الف۔ نقدی رقم (3150) ریال کی زکاۃ: 78.75 ریال ہوگی۔

*ب۔  دوستوں کیساتھ شراکتی کاروبار میں سے آپکے حصہ کی زکاۃ کیلئے : ہر ہزار ریال میں سے 25 ریال  ادا کرینگے، اور اس کےلئے آپ اپنی مصنوعات کی لاگتی قیمت  کی بجائے زکاۃ ادا کرنے کے وقت میں انکی مارکیٹ کے مطابق قیمت لگائیں گے، جیسے کہ ہم نے متعدد سوالات کے جوابات میں ہم نے اس چیز کا ذکر کیا ہے، مثال کے طور پر آپ دیکھیں: (65722

*ج ۔ آپکے پاس زمین کی قیمت پر زکاۃ نہیں ہے، بشرطیکہ آپ زمینوں کی خرید وفروخت کا کام نا کرتے ہوں، اور اگر زمین کی خرید وفروخت آپکا کاروبار ہے تو آپ کو زکاۃ دیتے  وقت یعنی 25 شعبان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق  اسکی قیمت کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی،  اور اس صورت میں زکاۃ فرض ہونے کیلئے زمین فروخت ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے زمین کو بطور تجارت خریدا ہے، چنانچہ اسکی قیمت میں سے ہر ہزار ریال پر 25 ریال زکاۃ ادا کروگے۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: ( 32715 ) ،  ( 67594 ) دیکھیں اور آپکے لئے سوال نمبر:  ( 105334 ) انتہائی اہم ہے۔

سوم:

آپکےذاتی مال، اور دوستوں کیساتھ شراکتی کاروبار کو زکاۃ کیلئے الگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ اپنے ذاتی مال، اور ذاتی تجارت کے مال کو مشترکہ کاروبار کے حصہ کے ساتھ ملا کر سارے مال کی زکاۃ ادا کردیں۔

چہارم:

اگر آپکے پاس اپنی تجارت، اور زمین کی زکاۃ ادا کرنے کیلئے رقم موجود نہیں ہے، تو زکاۃ کی ادائیگی آپکے ذمہ قرض ہوگی، جسے آپ نے رقم کی دستیابی کے وقت  ادا کرنا ہے، اگرچہ آپ پر واجب نہیں ہے کہ آپ کسی سے قرضہ لیکر زکاۃ ادا کریں، لیکن اگر قرضہ لیکر ادائیگی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

چنانچہ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک شخص زمین کا مالک ہے جسکی قیمت مثال کے طور پر ایک لاکھ ریال ہے، اس نے یہ زمین پراپرٹی کاروبار کیلئے لی ہے، اور اس پر ایک سال بھی گزر چکا ہے، لیکن مالک کے پاس زمین کے علاوہ کچھ نہیں ہے، تو کیا وہ لوگوں سے قرضہ لیکر زکاۃ ادا کرسکتا ہے؟ یا پھر -بعض لوگوں کے مطابق-زمین فروخت  کرنے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکاۃ ادا کرے؟ اور اگر زمین فروخت کرنے کے بعد زکاۃ ادا کرتا ہے تو گذشتہ سالوں میں زمین کی قیمت کیسے لگائے گا؟ کیونکہ ہر سال زمین کی قیمت تبدیل ہوتی رہتی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"وہ شخص ہر سال اس زمین کی قیمت لگائے گا، اگر اسکے پاس پیسے ہوئے تو زکاۃ ادا کردیگا ورنہ فروخت ہونے کے بعد زکاۃ دے گا، اور اسکے پاس پیسے نہ ہونے کی صورت میں کسی سے قرضہ لیکر زکاۃ ادا کرنا اس پر فرض نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر وہ قرضہ اٹھا کر زکاۃ ادا کردیتا ہے تو یہ جائز ہوگا، اور اگر قرضہ نہ لے تو زکاۃ اسکے ذمہ باقی رہے گی، جو کہ پیسے میسر آنے پر یا زمین کے فروخت ہونے پر ادا کریگا"
شيخ عبد العزيز بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفيفی ، شيخ عبد الله بن غديان ۔

" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 9 / 327 ، 328 )

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (47761) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب