بدھ 13 ربیع الثانی 1446 - 16 اکتوبر 2024
اردو

رمضان المبارك ميں عورت كا جان بوجھ كر ماہوارى لانا

سوال

ميں ان عورتوں ميں شامل ہوتى ہوں جنہيں علاج معالجہ كے بغير ماہوارى نہيں آتى، تو كيا ميرے ليے رمضان المبارك ميں ماہوارى لانے كى دوائى استعمال كرنى چاہيے تا كہ حيض كا خون آ جائے، كيونكہ ماہوارى لانا ميرے اختيار ميں ہے اگر دوائى استعمال كرونگى تو ماہوارى آئيگى وگرنہ نہيں كيا رمضان ميں ماہوارى لا سكتى ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر عورت كو دوائى كھائے بغير بالكل ماہوارى نہ آتى ہو جيسا كہ سوال ميں وارد ہے يا پھر غير منظم طريقہ سے آئے اور عورت كو ماہوارى كا خون لانے يا اسے منظم كرنے كے ليے دوائى كھانے كى ضرورت ہو تو دوائى استعمال كر كے ماہوارى لانے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ دوائى اور علاج مباح ہو، اور اس كے استعمال سے عورت كو ضرر اور نقصان نہ ہوتا ہو.

اس ليے جب دوائى استعمال كرنے كے بعد ماہوارى آ جائے تو ماہوارى كى مدت ميں عورت نماز روزہ چھوڑ دے گى روزہ كى قضاء كريگى ليكن نماز كى قضاء نہيں، جيسا كہ سب عورتيں ماہوارى كے ايام ميں كرتى ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اگر عورت ماہوارى كے ليے دوائى استعمال كرے اور اسے ماہوارى آ جائے تو اس پر نماز كى قضاء لازم نہيں ہو گى اور اسى طرح اگر وہ بچہ ضائع كرنے كے ليے دوائى استعمال كرے اور حمل ساقط ہو جائے اور اسے نفاس كا خون آئے تو صحيح قول كے مطابق مدت نفاس كى نمازوں كى قضاء نہيں كريگى " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 3 / 10 ).

دوم:

عورت كے ليے رمضان المبارك ميں يا رمضان كے قريب آنے پر رمضان كے روزے نہ ركھنے كے مقصد سے عمدا اور جان بوجھ كر ايسى دوائى استعمال كرنى حرام ہے.

مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حصول حيض كے ليے دوائى استعمال كرنا جائز ہے، اسے شيخ تقى الدين يعنى ابن تيميہ نے بيان كيا اور الفروع ميں اس پر اقتصار كيا ہے، ليكن رمضان المبارك قريب آنے پر رمضان كے روزے نہ ركھنے كى بنا پر استعمال كرنا جائز نہيں، اسے ابو يعلى الصغير نے بيان كيا ہے.

ميں كہتا ہوں: ( يعنى مرداوى ) اس كا كوئى مخالف نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 1 / 273 ) اور الفروع ( 1 / 393 ) اور الفتاوى الكبرى ( 5 / 315 ).

اور شيخ منصور البھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كے ليے حصول حيض كے ليے مباح دوائى استعمال كرنا جائز ہے، ليكن رمضان كے روزے چھوڑنے كے ليے قرب رمضان ميں دوائى استعمال كرنى جائز نہيں، سفر كى طرح تا كہ وہ روزے چھوڑ سكے " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 218 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب