سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بيوہ كا دوران عدت تعزيت كرنے والوں كے استقبال كے ليے اپنے گھر سے باہر كسى دوسرى جگہ جانا

158544

تاریخ اشاعت : 20-12-2013

مشاہدات : 5162

سوال

ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور اسكى اولاد بھى ہے يہ عورت اپنے اور خاوند كے خاندان كے شہر سے ايك سو كلو ميٹر سے بھى زيادہ فاصلہ پر رہتى ہے، ہمارے ہاں يہاں لبيا ميں رواج ہے كہ جب كسى كا خاوند فوت ہو جائے تو تعزيت كى جگہ خاوند كے والد كا گھر ہوتا ہے، جس نے بھى تعزيت كرنا ہو وہ خاوند كے خاندان كے گھر جائے.
سوال يہ ہے كہ: خاوند كى وفات كے ابتدائى ايام ميں بيوہ عورت كہاں رہے آيا اپنے گھر ميں جو خاندان سے سو كلو دور ہے، يا كہ وہ تعزيت والى جگہ پر رہے اور پھر باقى عدت اپنے گھر گزارے ؟
يہ علم ميں رہے كہ خاوند كسى خاص سبب كى بنا پر شہر سے دور رہتا تھا، ہمارے ہاں اس طرح مشكلات اكثر پائى جاتى ہيں، برائے مہربانى تفصيلى جواب دين كر عند اللہ ماجور ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

درج ذيل حديث كى بنا پر بيوہ عورت اپنى عدت كا عرصہ اپنے خاوند كے گھر ميں ہى مكمل كريگى:

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى بہن فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا سے فرمايا:

" تم اپنے اسى گھر ميں عدت مكمل كرو جہاں تمہيں اپنے خاوند كے فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 200 ) سنن ابن ماجہ حدث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ضرورت و حاجت كى خاطر بيوہ عورت كے ليے دوران عدت دن كے وقت اپنے گھر سے باہر جانا جائز ہے، مثلا ضرورى اشياء كى خريدارى كے ليے بازار جانا، يا پھر كام كے ليے .

ليكن رات كے وقت وہ بغير ضرورت نہيں نكل سكتى مثلا كوئى چور اور ڈاكو اس كے گھر پر دھاوا بول دے تو باہر جا سكتى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوہ عورت چار ماہ دس دن عدت گزارےگى، اور وہ عدت كے عرصہ ميں زينت و زيبائش اور بدن و لباس ميں خوشبو لگانے سے اجتناب كريگى، نہ تو وہ زينت اختيار كرے گى اور نہ ہى خوشبو لگائيگى، اور نہ ہى خوبصورت لباس زيب تن كريگى، اور اپنے گھر ميں ہى رہےگى، بغير حاجت كے دن كے وقت باہر نہيں نكلےگى، اور رات كو بھى ضرورت كے بغير باہر نہيں جائيگى....

اس كے ليے ہر وہ چيز جائز ہے جو عدت كے علاوہ عرصہ ميں جائز ہے؛ مثلا اگر باپرد ہو كر اسے كسى مرد سے بات چيت كرنا پڑے تو كر سكتى ہے.

ميں نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے اگر كوئى صحابى فوت ہو جاتا تو صحابہ كرام كى بيوياں يہى كيا كرتى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں نے بھى ايسا ہى كيا "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 27 - 28 ).

تعزيت كے ليے عورت گھر سے نہيں نكل سكتى جيسا كہ سوال ميں وارد ہوا ہے؛ كيونكہ جب دوران عدت عورت حج كے ليے گھر نہيں نكل سكتى تو پھر تعزيت كى خاطر سسر كے گھر تو بالاولى نہيں جا سكتى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك عورت اور اس كے خاوند نے حج كا عزم كيا تو شعبان كے مہينہ ميں اس كے خاوند كى وفات ہوگئى تو كيا اس كے ليے حج كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

آئمہ اربعہ كے ہاں بيوہ عورت دوران عدت حج كے ليے سفر نہيں كر سكتى "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 29 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 72269 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اصل تو يہ ہے كہ لوگ مصيبت زدہ كے گھر جا كر تعزيت كريں، نہ كہ جسے مصيبت آئى ہے وہ تعزيت كے ليے آنے والوں كو ملنے كسى دوسرے گھر جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب