ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

خاوند اولاد پيدا نہ كر سكے تو كيا طلاق يا خلع طلب كرنا صحيح ہے ؟

163059

تاریخ اشاعت : 16-11-2011

مشاہدات : 5947

سوال

ميرى سات برس قبل شادى ہوئى اور ميں اپنے خاوند كے ساتھ امريكہ ميں رہائش پذير ہوں، ميرى مشكل يہ ہے كہ ميرا خاوند اولاد پيدا نہيں كر سكتا، ڈاكٹروں نے كئى بار مصنوعى طريقہ سے بھى اولاد كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، ميں نے فيصلہ كيا اللہ كى رضا پر راضى ہو كر معاملہ اللہ كے سپرد كر دوں، اور اس كے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھى كرتى رہوں اور استغفار بھى كثرت سے كروں.
ليكن ميں بہت اكتاہٹ سى محسوس كرتى ہوں، كيونكہ امريكہ ميں ايك باپرد عورت كے ليے ملازمت كرنا آسان نہيں ميرا نہ تو كوئى بچہ ہے جس كى ديكھ بھال كروں، اور نہ ہى ملامت كرتى ہوں، ميرا خاوند تقريبا دس گھنٹے روزانہ كام كرتا ہے، ميں اكثر اوقات يہ محسوس كرتى ہوں كہ اس حالت ميں رہ كر ميں اپنے آپ پر ظلم كر رہى ہوں.
مجھے كوئى اور خاوند تلاش كرنا چاہيے تا كہ ميں ماں بن سكوں، يا پھر اپنے ملك واپس چلى جاؤں تا كہ مجھے آسانى سے كوئى كام مل جائے اور ميں مشغول ہو كر وقت گزار سكوں، ميرے گھر والوں كى رائے بھى يہى ہے، ليكن مجھے بتائيں اس سلسلہ ميں دين كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بانجھ ہونا يا پھر اولاد پيدا نہ كر سكنے كو بعض فقھاء كرام نے ايسا عيب شمار كيا ہے جس كى بنا پر عورت كو اگر پہلے علم نہ تھا كہ خاوند بانجھ ہے تو اسے فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" صحيح يہى ہے كہ ہر وہ عيب جس سے نكاح كا مقصد جاتا رہے اور پورا نہ ہو تو وہ عيب معبتر ہوگا، بلاشك و شبہ نكاح كے اہم ترين مقاصد ميں استمتاع اور خدمت اور اولاد پيدا كرنا ہے، اس ليے اگر اس ميں كوئى مانع ہو تو وہ عيب شمار ہوگا، اس بنا پر اگر بيوى نے اپنے خاوند كو بانجھ پايا يا پھر وہ خود بانجھ ہو تو يہ عيب ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 220 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 43496 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اس ليے اگر عورت كو نكاح سے قبل يا نكاح كے بعد عيب كا علم ہوا اور وہ اس پر راضى ہوگئى تو اس كا حق فسخ ساقط ہو جائيگا.

زاد المستقنع ميں درج ہے:

" اور جو كوئى عيب پر راضى ہوگيا، يا پھر اسے اس عيب كے معلوم ہونے كى كوئى دليل پائى گئى تو اس كو نكاح فسخ كرنے كا كوئى اختيار نہيں ہوگا " انتہى

آپ كے سوال سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ اس پر راضى تھي اور آپ نے اجروثواب كى نيت كر ركھى ہے.

اس ليے اگر آپ اپنے خاوند كو چھوڑنا چاہتى ہيں تو آپ كے ليے طلاق طلب كرنے يا پھر خلع كرنے كے علاوہ كوئى اور راہ نہيں ہے.

دوم:

اگر عورت كو بغير اولاد پيدا كيے ضرر و نقصان ہوتا ہے اور اسے خدشہ ہو كہ وہ خاوند كے حقوق ادا نہيں كر سكتى يا پھر وہ كفريہ ملك ميں رہنا ناپسند كرے اور اپنے آپ پر فتنہ كا خطرہ ہو، اور اس كا خاوند اسے اسلامى ملك ميں واپس بھيجنے سے انكار كر دے تو ايسى عورت كے ليے طلاق يا خلع طلب كرنا مباح ہو جاتا ہے.

حالانكہ اصل ميں بغير كسى عذر كے طلاق يا خلع طلب كرنا حرام ہے؛ كيونكہ ابو داود اور ترمذى كى روايت كردہ حديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے.

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت اور سبب و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1178 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا خلع لينے والياں منافقات ہيں "

طبرانى الكبير ( 17 / 339 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1934 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

خاوند كى نافرمانى اور اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كر سكنے كے خدشہ كے وقت خلع حاصل كرنے كے جواز پر درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو دين ميں كوئى عيب لگاتى ہوں، اور نہ ہى اخلاق ميں، ليكن ميں اسلام ميں كفر و ناشكرى كو ناپسند كرتى ہوں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟

تو اس عورت نے جواب ديا: جى ہاں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم اپنا باغ قبول كر لو، اور اسے ايك طلاق دے دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5273 ).

اور ابن ماجہ ميں درج ذيل الفاظ ہيں:

" ثابت بن قيس كى بيوى كہنے لگى:

" ميں اسے ناپسند كرنے كى وجہ سے اس كى طاقت نہيں ركھتى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2056 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے آپ كو اپنے معاملہ ميں ديكھنا چاہيے اور غور كرنا چاہيے، اور آپ طلاق يا خلع طلب كرنے ميں جلدى مت كريں، بلكہ طلاق يا خلع كو جائز كرنے والے اسباب كى حالت ميں ہى طلاق يا خلع كا مطالبہ كريں، كيونكہ اس حالت ميں آپ كا خاوند كے ساتھ رہنے ميں نقصان و ضرور ہو تو ايسا كر ليں.

ليكن صرف اولاد پيدا نہ كرنا اسے جائز قرار نہيں دے، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ اس كے بعد جس خاوند سے شادى كريں اس سے بھى كوئى اولاد نہ ہو تو پھر؟.

كتنى ہى ايسى عورتيں ہيں جنہوں نے اپنے خاوند كے بانجھ ہونے پر صبر سے كام ليا حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں اپنے فضل و كرم سے نواز كر اولاد دے دى، اور اگر يہ بانجھ پن آپ كى جانب سے ہوتا يعنى آپ اولاد پيدا نہ كر سكتى اور آپ كا خاوند آپ كو طلاق دينا چاہتا تو كيا آپ دكھ اور تكليف محسوس نہ كرتيں، اور اسے بےوفائى تصور نہ كرتيں.

رہا مسئلہ فارغ رہنے كا كہ آپ فارغ رہتى ہيں تو اس كا علاج كئى طرح كيا جا سكتا ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 47398 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

رہى ملازمت تو جب آپ كو اپنے خاوند كے اخراجات كافى ہيں تو آپ ملازمت كے بارہ ميں مت سوچيں، كيونكہ آپ كا خاوند كمائى كرتا اور آپ پر خرچ كرتا ہے، ليكن اس كے ساتھ ساتھ اگر آپ اپنے اردگرد تلاش كريں تو آپ كو مناسب كام مل سكتا ہے يعنى مسلمان بچوں كى تعليم اور انہيں قرآن مجيد حفظ كروانا، اور گھر ميں بيٹھ كر مختلف كام كرنے مثلا سلائى كڑھائى اور مہندى وغيرہ جو ان اجنبى ممالك ميں مسلمان عورتوں كى ضرورت ہوتى ہے.

آپ كو ہمارى وصيت و نصيحت ہے كہ آپ كسى اسلامك سينٹر سے منسلك ہو جائيں، اور نيك و صالح سوسائٹى اور سہيلياں اپنائيں، اور ان سے كسى نيك و صالح كام ميں معاونت حاصل كريں، اور اپنا وقت طلب علم ميں بسر كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد حفظ كر كے جتنا ممكن ہو سكے مشروع طريقہ سے نيكياں جمع كر كے وقت كو مشغول كر ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ آپ كى صحيح راہنمائى فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح اولاد عطا كر كے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب