جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر کسی شخص کی چٹیا ہو، تو کیا وضو، غسل، اور نماز کیلئے اسے کھولنا ضروری ہے؟

163428

تاریخ اشاعت : 16-12-2015

مشاہدات : 19695

سوال

سوال: کیا مرد کو وضو، غسل، اور نماز کی ادائیگی کیلئے اپنی چٹیا کھولنا ہوگی؟ یا چٹیا کے ساتھ ہی مرد یہ سب امور سر انجام دے سکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد کیلئے سر کے بال لمبے رکھنے اور ان کی مینڈھیاں  یا چٹیا بنانے کا حکم پہلے سوال نمبر: (69822) کے جواب میں تفصیلی گزر چکا ہے۔

دوم:

وضو کیلئے سر کے بالوں کا مسح کرنا واجب ہے، انہیں دھونا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ )یعنی تم وضو کرتے ہوئے اپنے سر کا مسح کرو۔[ المائدة:6]

اس بنا پر مرد ہو یا عورت کسی کیلئے بھی وضو میں اپنے سر کی چٹیا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ پیشانی سے لیکر گدی تک  سر کا مسح لازمی ہے، اسی طرح گدی سے نیچے والے بالوں کا بھی مسح کرنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ "سر" کا لفظ اسی حصے پر بولا جاتا ہے جو گدی سے اوپر ہو۔

اس بارے میں "كشاف القناع" (1/99) میں ہے کہ:
"سر سے نیچے کے بالوں کا مسح کرنا لازمی نہیں ہے، کیونکہ یہ بال سر کے معنی میں شامل نہیں ہو سکتے، بلکہ اگر کوئی شخص صرف گدی سے نیچے والے بالوں کا مسح کر لے تو اس کا مسح نہیں ہوگا، چاہے بعد میں ان بالوں کو اٹھا کر کے سر جمع ہی کیوں نہ کر لے" اننتہی

سوم:

غسل کرتے ہوئے پورے بدن اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہچانا لازمی ہوتا ہے، تاہم شریعت کی جانب سے عورت کو یہ رخصت دی گئی ہے کہ اگر عورت نے اپنی چٹیا بنائی ہوئی ہو اور غسل کرنا چاہے تو اپنے سر پر پانی کے چلو بہا لے کہ بالوں کی جڑ تک پہنچ جائے، لہذا عورت کو چٹیا کھولنے کی ضرورت نہیں ہے، اس بارے میں عورت اور مرد کا ایک ہی حکم ہے۔

اس کی دلیل صحیح مسلم (330)کی روایت ہے کہ : ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: "یا رسول اللہ! میں بڑی سختی کیساتھ اپنی چٹیا کرتی ہوں، تو کیا میں غسل جنابت کیلئے اپنی چٹیا کھولوں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں تمہیں چٹیا کھولنے کی ضرورت نہیں ہے، تم  بس اپنے سر پر تین چلو پانی بہا لو، اور پھر اس کے بعد اپنے سارے جسم پر پانی  ڈالو)

مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: "ام سلمہ نے کہا: تو کیا میں حیض یا جنابت کے غسل کیلئے انہیں کھولوں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں)

امام نووی رحمہ اللہ مسلم کی شرح میں کہتے ہیں:
"ہمارا اور جمہور کا موقف یہ ہے کہ اگر چٹیا کی شکل میں بال دھونے پر پانی تمام بالوں تک سرایت کر جاتا ہے تو پھر چٹیا کھولنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر چٹیا کھولے بغیر پانی پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے تو پھر ایسی صورت میں چٹیا کھولنا لازمی ہوگا، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کو چٹیا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی چٹیا کھولے بغیر ہی پانی سارے بالوں تک پہنچ جاتا تھا؛ کیونکہ ہمارے  ہاں سارے بالوں تک پانی پہنچانا واجب ہے۔

جبکہ امام نخعی  سے ہر حالت میں چٹیا کھولنا منقول ہے، وہ چٹیا کھولنا واجب قرار دیتے ہیں۔

جبکہ حسن اور طاؤس سے یہ منقول ہے کہ صرف حیض کے غسل میں چٹیا کھولنا واجب ، جنابت کے غسل میں واجب نہیں ۔

ہماری دلیل ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" انتہی

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/ 216) میں کہتے ہیں:
"ہمارے شافعی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: اگر مرد کی بھی عورت کی طرح چٹیا ہو تو اسکا حکم بھی عورت والا ہی ہوگا۔ واللہ اعلم"  انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حکم میں مرد و خواتین سب برابر ہیں، اور عورت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طور پر صرف عورتوں کے بال ہی گھنے اور زیادہ لمبے ہوتے ہیں" انتہی
"المغنی" (1/299)

اور امام شوکانی رحمہ ا للہ  "السيل الجرار" (1/72) میں کہتے ہیں کہ:
"مصنف نے یہ کہا ہے کہ: "مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنے سر کے بال کھولے"
میں [شوکانی] کہتا ہوں کہ: اس بارے میں وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (میں اپنے سر پر تین بار پانی بہا لیتا ہوں) [ احمد "2/132 - 133"، بخاری: "254"، ابن ماجہ: "276" ] اس بارے میں اور بھی کافی روایات ہیں۔

اس کی تائید میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کیلئے سر کے بال مکمل طور پر کھولنے کی قید نہیں لگائی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے۔۔۔ اور یہ بات مسلمہ ہے کہ مرد و خواتین کے تمام احکامات یکساں ہیں ؛ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ملنے والی ہدایات  سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد و خواتین اس حکم میں بھی یکساں ہی ہیں، اس لیے ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے اس مسئلہ میں مرد و خواتین کے درمیان فرق ثابت ہو" انتہی

دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا:
"کیا مرد و خواتین کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا اپنے سر کے بال کھولے؟ یا اسے غسل کیلئے تین چلو ہی سر پر ڈالنا کافی ہونگے، جیسے کہ حدیث میں بھی وارد ہوا ہے، اسی طرح حیض اور جنابت کے غسل میں کیا فرق ہے؟"

تو کمیٹی کی جانب سے جواب دیا گیا:
"غسل جنابت کی کیفیت میں مرد و خواتین میں کوئی فرق نہیں ہے، سب کیلئے ایک ہی  طریقہ کار ہے، نیز مرد  و خواتین میں سے کسی کو بھی اپنے سر کے بال  کھولنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اپنے سر پر صرف تین چُلو پانی ڈالے اور اس کے بعد سارے جسم پر پانی بہا لے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/349)

چہارم:

مرد اپنی چٹیا کیساتھ نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن مرد کیلئے بالوں کا جوڑا [یعنی چٹیا کو گول کر کے ایک جگہ جمع کر لیا جائے  یا چٹیا کو سر کے ارد گرد لپیٹ  لیا جائے یہ ] مکروہ ہے؛ کیونکہ اس بارے میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا، اور ان کا سر پیچھے کی جانب جُوڑے کی وجہ سے بڑھا ہوا تھا، تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کھڑے ہوئے اور بالوں کے جُوڑے کو کھول دیا، چنانچہ جب عبد اللہ بن حارث نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو کہنے لگے: "میرے سر کو کیوں چھیڑ رہے تھے؟!" تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (ایسی حالت میں نماز پڑھنے والے شخص کی مثال اس جیسی جس کے ہاتھ بندے ہوئے ہوں) مسلم: (492)

مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"حدیث کے عربی الفاظ: "معقوص" یعنی سر کے بالوں کو جمع کر کے جُوڑا بنا یا ہوا تھا۔

"مکتوف" اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ہاتھوں کو کندھوں کیساتھ باندھ دیا گیا ہو؛  ا س کے مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ: اگر بال کھلے ہوئے نہ ہوں تو وہ زمین پر نہیں لگیں گے، تو اس طرح وہ اپنے تمام اعضا کیساتھ نماز میں حاضر متصور نہیں ہوگا، جس طرح ہاتھوں کو کندھوں کیساتھ باندھ دیا جائے تو وہ بھی سجدہ کی حالت میں زمین پر نہیں لگیں گے۔
ابو شامہ کہتے ہیں کہ: یہ عمل اسی وقت مکروہ ہوگا جب عورتوں کی طرح سر کے بالوں کا جوڑا بنا لیا جائے گا" انتہی
"فيض القدير" (3/6)

اسی طرح " الموسوعة الفقهية " (26/ 109) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام نماز میں بالوں کا جُوڑا بنانے کو متفقہ طور پر مکروہ سمجھتے ہیں، جُوڑا بنانے کا مطلب یہ ہے کہ بالوں کی چٹیا کو سر کے ارد گرد لپیٹ لیا جائے، یا چٹیا اکٹھی کر کے گُدی کے پیچھے اکٹھی کر دی جائے، یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے، چنانچہ اگر کسی نے اسی طرح نماز پڑھ لی تو اس کی نماز درست ہوگی۔۔۔

نماز میں بالوں کا جوڑا بنانے سے روکنے کی حکمت یہ ہے کہ بال بھی نمازی کیلئے سجدہ کرتے ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث میں بالوں کا جوڑا بنانے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ "مکتوف "ہے، یعنی اس کے ہاتھ کندھوں سے بندھے ہوئے ہیں۔

جمہور علمائے کرام کی اس بارے میں یہ رائے ہےکہ جو بھی جوڑا بنا کر نماز ادا کرے وہ اس ممانعت میں شامل ہوگا، چاہے اس نے نماز کیلئے خصوصی طور پر جوڑا بنایا ہو، یا نماز سے پہلے ہی جوڑے کی حالت میں تھا اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی ، یا پھر کسی وجہ سے جوڑا بنایا  ہر حالت میں اس پر ممانعت کا اطلاق ہوگا؛ کیونکہ صحیح احادیث اسی مفہوم کا تقاضا کرتی ہیں، اور صحابہ کرام سے بھی یہی مفہوم منقول ہے۔

جبکہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ ممانعت ایسے شخص کیساتھ خاص ہے جو صرف نماز کیلئے خصوصی طور پر جوڑا بنائے" انتہی
واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب