جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

موت كے بعد تارك نماز كو صدقہ اور روزے كا فائدہ

سوال

ميرے والد صاحب فوت ہو گئے ہيں، والد صاحب كى زندگى ميں كئى بار ان كى نمازيں رہ گئى جو انہوں نے ادا نہيں كيں، والد صاحب فوت ہوئے تو ان كى عمر پينسٹھ برس تھى، تو كيا جو نمازيں انہوں نے ادا نہيں كيں ان كا صدقہ ادا كرنے كا كوئى طريقہ ہے ؟
برائے مہربانى مجھے رہ جانے والى نمازوں كى تعداد كا حساب لگانے كا طريقہ اور ترك كردہ نمازوں كے بدلے كتنى رقم ادا كرنى ہے كے متعلق نصيحت فرمائيں.
مثال كے طور پر اگر ہم والد صاحب كى زندگى سے پندرہ برس نكال ديں تو ان كى باقى زندگى پچاس برس رہتى ہے اور پچاس برس كے 18250 دن بنتے ہيں جن ميں انہوں نے نماز ادا نہيں كى تو آپ اس كے بارہ ميں مجھے بتائيں ميں آپ كا ممنون و مشكور رہوں گا.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سستى اور اور كوتاہى سے نماز ترك كرنے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح قول يہى ہے كہ وہ كافر ہوگا، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 2182 ) اور ( 5208 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں.

جب يہ طے ہو گيا كہ تارك نماز كافر ہے تو پھر اس كى جانب سے نہ تو صدقہ كرنا جائز ہے، اور نہ ہى روزے ركھنا اور نہ ہى حج كرنا.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا تارك نماز كى موت كے بعد اس كے ليے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا صحيح ہے چاہے وہ بعض اوقات نماز كرتا اور بعض اوقات نماز چھوڑنے والا بھى ہو ؟

اور كيا اس كى نماز جنازہ ميں شريك ہونا صحيح ہو گا اور اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كرنا صحيح ہے يا نہيں؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

جس نے نماز كے وجوب كا انكار كرتے ہوئے نماز ترك كى تو مسلمانوں كے اجماع كے مطابق وہ كافر ہے، اور جس شخص نے سستى اور كاہلى كے ساتھ نماز ترك كى تو وہ بھى كافر ہے اس بنا پر جس شخص نے جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرتے ہوئے فوت ہوا تو اس كے ليے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح اس كى نماز جنازہ ميں شريك ہونا اور اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كرنا بھى جائز نہيں ہے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے اور ان ( مشركوں اوركافروں ) كے درميان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى تو اس نے كفر كيا "

اسے امام احمد نے مسنداحمد اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بندے اور كفر و شرك كے مابين ( فاصلہ ) نماز ترك كرنا ہے "

اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء

اور اگر آپ كا والد نماز كے وجوب سے جاہل تھا، يا پھر ان علماء كرام كى تقليد كرتا تھا جو سستى اور كاہلى سے ترك نماز ميں عدم كفر كا فتوى ديتے ہيں تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ اللہ تعالى اسے معاف فرمائےگا، اور اس حالت ميں اس كى جانب سے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا فائدہ مند ہوگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب