الحمد للہ.
نكاح ميں عورت كے ليے مہر واجب ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو النساء ( 4 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى اس طرح ہے:
تم جو ان عورتوں سے فائدہ اٹھاؤ تو تم ان كے مہر انہيں كر دو يہ فرض ہے النساء ( 24 ).
يعنى ان كے مہر ادا كرو.
عقد نكاح كے وقت مہر پر اتفاق اور اسے ذكر كرنا ضرورى ہے، اور اگر مہر پر اتفاق نہ ہو اور عقد نكاح كے وقت مہر ذكر نہ كيا جائے تو نكاح صحيح ہوگا، اور عورت كو مہر مثل ملےگا.
آپ نے سوال ميں يہ بيان نہيں كيا كہ كيا كسى معين مہر پر اتفاق ہوا تھا يا نہيں ؟ اور آيا مہر معجل يا مؤجل ؟
اس ليے اگر كسى معين چيز پر اتفاق ہوا تھا تو اس كا التزام كرنا ضرورى ہے، اور نكاح نامہ ميں مہر لے ليا گيا ہے لكھنے كا كوئى اعتبار نہيں ہوگا.
بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ مہر معجل كى ادائيگى كا مطالبہ كرے اور خاوند جب تك مہر معجل ادا نہيں كرتا وہ خاوند كے قريب نہ جائے، ليكن مہر مؤجل اپنے وقت پر ہى طلب كيا جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر مہر فورى دينا تھا اور عورت مہر لينے تك اپنے آپ كو خاوند سے روك ليتى ہے تو يہ ا سكا حق ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جن اہل علم سے ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ سب اس پر متفق ہيں كہ مہر كے حصول تك عورت كو خاوند كے داخل ہونے سے منع كرنے كا حق حاصل ہے...
اور اگر كچھ مہر فورى اور كچھ مؤجل ہے تو فورى ديا جانے والا مہر ملنے تك عورت اپنے آپ كو خاوند سے روك سكتى ہے، ليكن مہر مؤجل كى بنا پر نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 200 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 127325 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
آپ واجب اور ضرورى ہے كہ اپنے اور خاوند كے متعلق اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرتے ہوئے خاوند كے حقوق كا خيال كريں، آپ نے جو بيان كيا ہے وہ آپ كو خاوند سے بغض پر نہ ابھارے.
بلكہ آپ اس مشكل اور پربلم كے اسباب معلوم كر كے اسے حل كرنے كى كوشش كريں، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كے ولى نے مہر لے ليا ہو، يا پھر آپ كے خاوند سے اتفاق كيا ہو كہ مہر مؤجل ہوگا يا كوئى اور سبب ہو.
اس ليے آپ اس معاملہ كو آرام اور محبت و مودد كے فضا ميں حل كريں، اور اپنے آپ اور خاوند كى حفاظت كريں، اور الفت و محبت قائم ركھنے كى كوشش كريں، اور خاوند كے حق كى ادائيگى ميں كوتاہى كيے بغير مشروع طريقہ سے اپنے حق كا مطالبہ كريں.
واللہ اعلم .