الحمد للہ.
پہلی بات:
مسلمان پر ضروری ہے کہ جب اس میں حج کیلئے استطاعت ہوتو جلد از جلد فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے کوشش کرے، اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (حج کی ادائیگی کیلئے جلدی کرو-یعنی فرض حج- اس لئے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے لئے کیا رکاوٹ بن سکتی ہے)
احمد: (2721)اور البانی نے ارواء الغلیل (990)میں اسے صحیح قرار دیا ہے،
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (جو حج کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے)کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود (1524) میں حسن قرار دیا ہے۔
دوسری بات:
خاوند کے فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے سفر پر جانے سے بیوی کو یقینی طور پر نقصان ہو تو ایسی صورت میں آئندہ سال تک حج مؤخر کرنا جائز ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا)
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
اور بیوی کے لئے خاوند کی دوری نقصان دہ ہونے کے باعث وہ حج کیلئے صاحبِ استطاعت نہیں ہے۔
لیکن ۔۔ اگر ممکن ہو تو خاوند اپنی بیوی کے پاس کسی رشتہ دار خاتون کو یا خادمہ کو چھوڑ سکتا ہے جو اسکی معاون بھی ہو اور خدمت بھی کرے، تو خاوند کیلئے ضروری ہے کہ وہ حج کیلئے چلا جائے، اور حج کے بعد مکہ میں زیادہ دیر مت ٹھہرے۔
اگر ایسا کرنا بھی نا ممکن ہو اور بیوی کو اسکی ضرورت بھی ہو تو حج مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ خاوند کا قابلِ قبول عذر ہے۔
واللہ اعلم