جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

خاوند مسلمان ملك ميں رہائش پذير ہونا چاہتا ہے ليكن بيوى نہيں مانتى

170963

تاریخ اشاعت : 21-05-2012

مشاہدات : 3788

سوال

اللہ تعالى آپ اور ہمارے مولانا صاحب كو بركت سے نوازے اور آپ كى وجہ سے مسلمانوں اور اسلام كو نفع دے، اللہ تعالى مجھے ميرى مشكل سے نجات دے، مجھے مشكل يہ درپيش ہے كہ جہاں ميں رہتا ہوں وہاں آنے سے ميرى مشكل شروع ہوئى يہاں آ كر ميں نے ايك مسلمان اور اہل سنت لڑكى سے شادى كى جو صوم و صلاۃ كى پابند ہے، اور اپنے گھر والوں كى مالى مدد بھى كرتى ہے، ميرا يہاں پر مستقل رہنے كا ارادہ تھا، اور ميں نے اپنى بيوى سے يہاں رہنے كا وعدہ بھى كيا تھا، يہاں مسلمانوں كى كثرت ہے اور غير مسلم حكومت مسلمانوں كا احترام بھى كرتى ہے.
اللہ تعالى نے ہميں ايك بيٹا عطا كيا جو اس وقت دو برس كا ہوچكا ہے، ميرى كوشش ہے كہ وہ صحيح دين پر چلنے اور عالم دين بنے، ليكن وقت گزرنے كے ساتھ مشكلات شروع ہوئى وہ اس طرح كہ مسجد ميں نماز ادا كرنا مشكل ہے يہاں مسلمانوں ميں بہت بدعات پيدا ہو چكى ہيں، مگر جس پر اللہ رحم كرے وہ بچا ہے، حتى كہ ميرى بيوى بھى ان بدعات ميں پڑ چكى ہے، ميں كتابيں وغيرہ دے كر اسے صحيح راہ پر لانے كى كوشش ميں ہوں، اسى طرح فحاشى اور بےپردگى عام ہے نظروں كو محفوظ ركھنا مشكل بن چكا ہے، اس ليے ميں نے بيوى كے سامنے تجويز ركھى كہ يہاں سے كسى مسلمان ملك چلے جائيں ميرا شوق ہے كہ مدينہ منورہ ميں رہوں، ليكن بيوى نے پورى شدت كے ساتھ انكار كر ديا، اور كہنے لگى كہ تم نے يہاں اسى ملك ميں رہنے كا وعدہ كيا تھا، اور پھر وہ اپنے گھر والوں سے دور نہيں رہ سكتى، ميں جانتا ہوں كہ ميں نے وعدہ كرنے ميں جلدبازى سے كام ليا تھا اور اب ندامت ہو رہى ہے نہ تو ميں يہاں مستقل رہ سكتا ہوں اور نہ ہى اپنے بچے كو چھوڑ كر جا سكتا ہوں، مجھے آپ كيا مشورہ ديتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى پر خاوند كى اطاعت كرنى لازم ہے، اور جہاں وہ جا كر رہتا ہے اسے بھى وہيں رہنا ہوگا، ليكن اگر بيوى نے شادى كے وقت شرط ركھى ہو كہ وہ اپنے ملك سے نہيں جائيگى يا وہ كسى اور جگہ نہيں لے كر جائيگا تو پھر يہ شرط پورى كرنا ہو گى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كسى شخص نے عورت سے شادى كى اور عورت نے شرط ركھى كہ وہ اسے اس كے گھر اور ملك و علاقے سے كہيں اور نہيں لے كر جائيگا تو اس كى يہ شرط صحيح ہے، اور خاوند كو شرط پورى كرنا ہوگى.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جن شروط كو تمہيں سب سے زيادہ پورا كرنے كا حق ہے وہ شرطيں ہيں جن سے تم شرمگاہيں حلال كرتے ہو "

اور اگر شادى كے وقت عورت شرط ركھتى ہے كہ وہ دوسرى شادى نہيں كريگا، اگر خاوند نے دوسرى شادى كر لى تو پہلى بيوى كو عليحدگى كا حق حاصل ہے.

بالجملہ يہ كہ نكاح ميں ركھى جانے والى شروط كى تين اقسام ہيں:

پہلى قسم:

انہيں پورا كرنا لازم ہے، يہ وہ شرائط ہيں جن كا فائدہ اور نفع عورت كو ہوتا ہو مثلا بيوى نے شرط ركھى كہ وہ اسے اس كے گھر اورعلاقے سے كہيں اور نہيں لے كر جائےگا، يا پھر اس كے علاوہ دوسرى عورت سے شادى نہيں كريگا، تو اس كى يہ شرط پورى كرنا لازم ہو گى، اگر وہ شرط پر عمل نہيں كرتا تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.

عمر بن خطاب اور سعد بن ابى وقاص اور معاويہ اور عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى قول مروى ہے، اور شريح اور عمر بن عبد العزيز اور جابر بن زيد، طاؤس، اوزاعى اسحاق رحمہم اللہ كا قول بھى يہى ہے.

ليكن امام زہرى اور قتادۃ، ھشام بن عروۃ، امام مالك، ليث، ثورى، امام شافعى، ابن منذر  اور اصحاب الرائے رحمہ اللہ نے ان شروط كو باطل قرار ديا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 483 ).

اس بنا پر اگر آپ كى بيوى نے شادى كے وقت شرط ركھى تھى كہ اسے اس كے ملك سے باہر نہيں لے كر جاؤ گے يا پھر آپ نے اس سے شادى اس شرط پر كى تھى كہ آپ اس كے ساتھ اسى كے ملك ميں رہو گے تو پھر اسے آپ كے ساتھ جانا لازم نہيں ہے.

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ اسلامى ملك ميں رہنا چاہتے ہيں جہاں كتاب و سنت پر عمل ہوتا ہے يہ معتبر امر ہے، اور اسى طرح بيوى اور بچے كى حفاظت بھى اہم اور معتبر ہے، اگر ان دونوں كو جمع كرنا ممكن نہيں تو پھر آپ اپنے آپ كو علم نافع اور عمل صالح كے ساتھ محفوظ كريں، اس ملك ميں اہل اسلام سے تعارف كر كے ان ميں دعوت الى اللہ كا كام كريں، ہو سكتا ہے آپ كے ہاتھ پر كسى كو ہدايت نصيب ہو جائے، اور آپ كى بنا پر سنت پر عمل شروع ہو اور سنت پھيل جائے، تو اس طرح آپ كا قدوم ان كے ليے مبارك بن جائے.

اور آپ اپنے بچے كى تربيت كے ليے اچھے پروگرام تلاش كريں، اس ميں آپ اس كى تعليم و تربيت اور حفظ قرآن كے ليے كسى مدرس كى معاونت بھى حاصل كر سكتے، اور بچے كو اسلامى سكول ميں داخل كرائيں.

اور اگر ممكن ہو سكے تو آپ طويل عرصہ تك نہ رہيں كہ آپ وہاں رہنے سے اكتا جائيں، اس ليے آپ حج اور عمرہ كے ليے چلے جائيں، اس طرح آپ كو عبادت كا اجروثواب بھى حاصل ہوگا اور سياحت بھى ہو جائيگى، اور آپ كى اكتاہٹ و ملل بھى دور ہو جائيگى.

كون جانتا ہے كہ ہو سكتا ہے جب بيوى آپ كے ساتھ اس سفر ميں بركتيں ديكھے اور مكہ و مدينہ كے پرنور مقامات كى زيارت كرے تو وہ بھى وہاں رہنے كا شوق كرنے لگے، يہ بھى ہو سكتا ہے كہ آپ اس كے ليے مالى انعام اور رقم ركھيں جو وہ اپنے گھر والوں كو دے تا كہ مالى معاونت ختم نہ ہو.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كا شرح صدر كرے اور آپ كے معاملات ميں آسانى پيدا كرے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب