اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک حدیث (جس شخص نے رجب میں کہا: "أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ...") من گھڑت روایت ہے، صحیح نہیں ہے۔

سوال

مجھے موبائل فون پر ایک حدیث موصول ہوئی ہے، اور میں اس کی صحت کے متعلق جاننا چاہتا ہوں ، حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جس شخص نے رجب میں سو مرتبہ کہا: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" اور اس کے بعد صدقہ کر دیا تو اللہ تعالی اس کیلئے رحمت و مغفرت کی مہر لگا دے گا، اور جس شخص نے یہ الفاظ چار سو مرتبہ کہے تو اللہ تعالی اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب لکھ دے گا)" کیا یہ صحیح ہے؟ مجھے اس کے بارے میں بتلائیں

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ حدیث ہمیں کتب احادیث، اور آثار میں نہیں ملی، اور نہ ہی  کسی اہل علم  نے اسے روایت کیا ہے، بلکہ یہ حدیث ہمیں کسی ایسی کتب میں بھی نہیں ملی جو من گھڑت اور خود ساختہ احادیث کیلئے مختص ہیں۔

البتہ ہمیں یہ روایت شیعوں کی کچھ کتب میں ملی ہے، جو حقیقت میں کذب و افتراء سے بھری ہوئی  ہیں، ان میں کوئی بھی بات بغیر کسی سند اور توثیق کے بیان کی جاتی ہے، چنانچہ ابن طاؤوس -ان کا نام علی بن موسی بن جعفر ہے- وفات: 664ہجری نے اپنی کتاب "اقبال الاعمال" (3/216) میں ذکر کیا ہے کہ  ہمیں  یہ روایت شیعوں کی کتابوں کے علاوہ کہیں نہیں ملی، پھر ابن طاؤوس نے بھی اس روایت کو بغیر سند کے ذکر کیا، اور کہا:
"فصل: ماہِ رجب میں  استغفار، لا الہ الا اللہ، اور توبہ کرنے کی فضیلت  کے بارے میں :
ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ایک روایت ملتی ہے کہ : (جس شخص نے رجب میں کہا سو مرتبہ کہا: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" اور اس کے بعد صدقہ  کر دیا تو اللہ  تعالی اس  کیلئے رحمت و مغفرت کی مہر لگا دے گا، اور جس شخص نے یہ الفاظ چار سو مرتبہ کہے تو اللہ تعالی اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب لکھ دے گا، جس وقت وہ اللہ تعالی سے قیامت کے دن ملے گا تو اللہ تعالی اسے فرمائے گا: "تم نے میری بادشاہت کا اقرار کیا، اب تم جو چاہو مجھ پر احسان کرو، تا کہ میں بھی تمہیں نوازوں، کیونکہ آج میرے علاوہ کوئی نہیں قدرت رکھنے والا نہیں ہے")" انتہی
اسی کتاب کے حوالے سے دیگر شیعہ کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے، مثلاً:  "وسائل الشیعہ" (10/848) از حر عاملی وفات: 1104 ہجری۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں خود ساختہ  ہونے کے شواہد موجو دہیں:

اول: اس حدیث کی سند ہی نہیں ہے۔

دوم: یہ حدیث صرف شیعوں کی کتابوں میں موجود ہے،  پھر ان کی کتابوں میں سے کچھ ویب سائٹس ، اور انٹرنیٹ پر مشہور ہوگئی، اسی وجہ سے انٹرنیٹ پر  مشہور روایات  سے بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے اکثر روایات شیعہ کتابوں سے حاصل کرد ہ ہوتی ہیں۔

سوم: یہ حدیث ماہِ رجب کی فضیلت سے متعلق ہے، جبکہ ماہِ رجب کے فضائل سے متعلق کوئی بھی  حدیث  ہو اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس بارے میں من گھڑت روایات کی بھر مار ہے، حتی کہ بعض  علمائے کرام نے اس بارے میں خصوصی طور پر تالیف بھی لکھی، مثلاً: ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ہے:  " تبيين العجب بما ورد في فضل رجب" اس کتاب میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہِ رجب کے بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح ثابت نہیں ہے، چاہے اس ماہ میں روزے رکھنے کے بارے میں ہو یا اس میں کسی خاص دن  کے روزے سے متعلق ہو، اور اسی طرح اس ماہ کی کسی رات میں قیام کرنے کے متعلق بھی کوئی روایت ثابت نہیں ہے، چہ جائیکہ کہ اس پر عمل بھی کیا جائے، مجھ [ابن حجر ] سے پہلے امام حافظ ابو اسماعیل ہروی  بھی یہی بات کہہ چکے ہیں، ہمیں ان سے  یہ بات صحیح سند کیساتھ  ملی ہے، بالکل اسی طرح دیگر علمائے کرام نے بھی یہی موقف اپنایا ہے، لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کچھ اہل علم فضائل  سے تعلق رکھنے والی  ضعیف احادیث بیان کرنے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، بشرطیکہ ضعیف روایت خود ساختہ نہ ہو، اسی طرح ساتھ میں یہ شرط لگانا بھی ضروری ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا شخص حدیث کو ضعیف ہی سمجھے، اور اسے آگے مت پھیلائے، تا کہ کوئی انجانے میں اس ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہوئے ، ایسا عمل شریعت میں سمجھ لے جو شریعت میں ہے ہی نہیں، یا کچھ جاہل لوگ  اسے عمل کرتے ہوئے دیکھیں تو اسے صحیح سنت ہی نہ سمجھ لیں" انتہی
" تبيين العجب بما ورد في فضل رجب " (صفحہ: 11)

چہارم: اجر بیان کرتے ہوئے حدیں پار کر دی گئی ہیں، کہ ماہِ رجب میں کیے جانے والے ایک چھوٹے سے عمل پر  سو شہیدوں کے اجر سے بھی زیادہ  بیان کیا گیا ہے، اور اس قسم کا اجر صحیح احادیث میں بیان نہیں ہوا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب