الحمد للہ.
اول:
شکار دو طرح سے ہو سکتا ہے:
پہلی صورت: شکار سے فائدہ اٹھانے کے لیے شکار کرنا، مثلاً: کھانے کے لیے ، یا فروخت کرنے کے لیے یا ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کے لیے، یا عزیز و اقارب اور دوستوں کو تحفہ دینے کے لیے ، یا اس کے علاوہ شکار سے استفادے کے طریقے ہوں ان سب مقاصد کے لیے شکار کرنا جائز ہے، اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" شکار کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ شکار اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حلال قرار دیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے بھی ثابت ہے، نیز اس کے جواز پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (15/98)
دوسری صورت: شکار فضول میں کیا جائے کہ وقت پاس ہو، اور شکار کرنے کے بعد شکار استعمال میں نہ لایا جائے، تو اس قسم کا شکار بعض اہل علم کے ہاں مکروہ ہے، جبکہ کچھ اہل علم اسے حرام کہتے ہیں، اس کے مکروہ ہونے کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص نے چڑیا نا حق قتل کی تو اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن اس بارے میں باز پرس فرمائے گا۔) کہا گیا: چڑیا کا حق کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آپ اسے ذبح کریں اور کھا لیں، محض اس کا سر کاٹ کر پھینک نہ دیں۔) نسائی: (4349) اور دارمی: (1978) نے اسے روایت کیا ہے، علامہ ذہبی " المهذب " (7/3614) میں کہتے ہیں کہ: " اس کی سند جید ہے" ، جبکہ علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے اسے " البدر المنير" (9/376) میں صحیح قرار دیا ہے ، اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے " إرشاد الفقيه " (1/368) میں حسن کہا ہے، اسی طرح علامہ البانیؒ نے بھی اسے صحيح الترغيب (1092) میں حسن قرار دیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس قسم کا شکار مکروہ ہے، اور اگر اسے حرام قرار دیا جائے تو اس موقف میں وزن ہے؛ کیونکہ ایسا شکار فضول اور بے مقصد ہے، اس سے مال کا ضیاع ہوتا ہے اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (15/98)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر شکار سے استفادہ مقصود نہیں ہے تو پھر فضول شکار کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہ فضول میں جاندار کی جان لینے کی صورت میں فساد فی الارض ہے۔" ختم شد
" فتح الباری " (9/602)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (22/ 512)میں ہے کہ:
"شکار کو محض لہو و لعب کا نشانہ بنانا منع ہے؛ کیونکہ اس طرح مال بھی ضائع ہو گا اور جانور کو تکلیف بھی ہو گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع بھی فرمایا ہے۔" ختم شد
دوم:
ہمیں کسی ایسی شرعی نص کا علم نہیں ہے جس میں جانداروں کے ملاپ کے موسم میں یا انڈے دینے کے موسم میں شکار منع قرار دیا گیا ہو، لہذا ان اوقات میں بھی شکار کا اصل حکم یعنی جواز باقی رہے گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شرعی حکم تو یہی ہے کہ ان اوقات میں شکار کرنا جائز ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ اگر چوزوں کی دیکھ بھال کے موسم میں ہو تو شکار نہ کیا جائے، ہاں اگر چوزوں کی جگہ کا علم ہو تو شکار کر کے چوزوں کو بھی اٹھا لے اور انہیں بھی ذبح کر کے استعمال کر لے۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " (1/75)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ سے پوچھا گیا:
جب کچھ جانور حمل سے ہوں یا پرندوں کے چھوٹے چھوٹے چوزے ہوں تو کیا ایسے موسم میں ان کا شکار نہیں کرنا چاہیے؟
تو انہوں نے جواب دیا: "میں نے اس بارے میں ایسی کوئی دلیل نہیں سنی؛ تاہم ایسا کرنا بہتر لگتا ہے؛ کیونکہ چوزوں کے ساتھ ان کی ماں رہے تو یہ اچھی بات ہے، لیکن حرام نہیں ہے۔" ختم شد
" فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن إبراهيم " (12/223)
کچھ اہل علم نے ایسی مادہ کا شکار مکروہ قرار دیا ہے جس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنی ماں کی ضرورت ہو۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (22/ 512)میں ہے:
"چوزوں کی ماں کو قتل کرنا، یا اسے زندہ اٹھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ چوزوں کو خیال رکھنے والی ماں کی ضرورت ہے ۔" ختم شد
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے پرندوں کا شکار کرنا مکروہ ہے جن کے چھوٹے چھوٹے چوزے ہوں؛ کیونکہ ان پرندوں کا شکار کرنے کی وجہ سے چوزوں کو نقصان ہو گا، اسی طرح چھوٹے چوزوں کو اٹھانا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح پرندوں کو دکھ ہو گا کہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں بھی اپنے بچوں کے لیے شفقت پیدا کی ہوئی ہے۔
لیکن اگر کوئی پرندے کا شکار کر لے اور چوزوں کو اٹھا لے تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے؛ کیونکہ بنیادی اصول یہ ہے کہ ماکول اللحم جانور کا شکار کرنا جائز ہے۔" ختم شد
حاصل کلام :
ملاپ اور انڈے دینے کے موسم میں پرندوں کا شکار کرنا ، یا ایسے پرندوں کا شکار کرنا جس کے چوزے ابھی چھوٹے ہیں ؛ جائز ہے اس میں حرج نہیں ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ ان کا شکار نہ کیا جائے ۔
واللہ اعلم