اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا میرے صاحب حیثیت والد زکاۃ وصول کر کے میرے بھائی کو دنیاوی تعلیم کیلئے دے سکتے ہیں؟

174734

تاریخ اشاعت : 14-02-2016

مشاہدات : 2805

سوال

سوال: میرے والد صاحب نصاب کے مالک ہیں اور اس کی زکاۃ بھی دیتے ہیں، وہ کسی دوسرے شخص کی زکاۃ اپنے بیٹے کی گریجویشن کی تعلیم مکمل کروانے کیلئے لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟ میں تو گورنمنٹ یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں اور میرا بھائی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے لیکن وہاں تعلیم خاصی مہنگی ہے۔۔ تو کیا میرے والد کیلئے زکاۃ وصول کرنا جائز ہے؟ وہ اس کیلئے دلیل یہ دیتے ہیں کہ میرا بھائی طالب علم ہے یہ واضح رہے کہ میرا بھائی دینی طالب علم نہیں ہے بلکہ وہ اکاؤنٹس کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جس مال کی ہم زکاۃ ادا کر تے ہیں یہ ہماری مکان کی خریداری کے سلسلے میں بچت ہے، ہم بچت اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمیں سودی بینکوں سے قرضہ نہ اٹھانا پڑے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد  اگر بیٹا کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کا خرچہ والد کے ذمہ واجب نہیں ہے۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (13464) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اور اگر بالغ بیٹے کا خرچہ والد کے ذمہ نہیں ہے تو بیٹے کیلئے بقدر ضرورت زکاۃ لینا جائز ہے ، چاہے دنیاوی علوم حاصل کرنے کیلئے ہی لے۔

اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے  سوال نمبر: (95418)

اور ایسی صورت حال میں بیٹا زکاۃ وصول کرنے کیلئے اپنے باپ کو  اپنا نمائندہ بنا سکتا ہے، اور پھر تعلیمی ضروریات پوری کرنے کیلئے وقت کے ساتھ ساتھ باپ سے رقم وصول کر سکتا ہے۔

ایک طالب علم کو اسی صورت میں زکاۃ وصول کرنے کی اجازت ہے  جب ملازمت اور تعلیم دونوں یکساں طور پر ساتھ چلانا ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو لیکن تعلیم پر منفی اثرات  مرتب ہوں تو بقدر ضرورت زکاۃ لے سکتا ہے۔

لہذا اگر ملازمت اور تعلیم دونوں کو بغیر کسی منفی اثرات کے برابر لے کر چل سکتا ہو  تو اس کیلئے زکاۃ وصول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہشام  اپنے والد سے اور وہ عبید اللہ ابن عدی سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتلایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر  زکاۃ لینے کیلئے گئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا ، وہ کڑیل جوان تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم چاہو تو میں دے دیتا ہوں، لیکن اس زکاۃ میں کسی مالدار اور کمانے کی صلاحیت رکھنے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے)احمد: (21985)  ابو داود: (1633)   نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابو داود: (1443) میں صحیح کہا ہے۔

اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ والد اپنے مال سے اس کی اعانت کرے، یا بیٹے کو چاہیے کہ ملازمت اور تعلیم دونوں کو حسب استطاعت یکجا جمع کر لے، تا کہ  اختلافی مسئلہ سے احتراز کیا جائے اور لوگوں  کے مال پر نظر رکھنے سے بچا جائے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے)
بخاری: (1429) مسلم: (1715)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زکاۃ کے بارے میں یہ بھی فرمان ہے کہ: (یہ لوگوں کا میل کچیل ہے) مسلم: (1784)

اور مقدام رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر کوئی اچھی کمائی کبھی نہیں کھائی، بیشک اللہ کے نبی داود علیہ السلام  اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنا پیٹ پالتے تھے) بخاری: (2072)

نیز رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا: کون سی کمائی بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان کی اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر مبرور [شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق]تجارت)"
احمد : (16628) بزار :(3731) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (2/106) میں صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب