جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

مشائخ سے والہانہ محبت، ان کی تقلید کرنا اور ان کی تصاویر لٹکانے کا حکم

176289

تاریخ اشاعت : 12-10-2024

مشاہدات : 804

سوال

آپ کی ایسے شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو کسی شیخ سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے، ان کے خطابات بہت زیادہ سنتا اور دیکھتا ہے، ان کی تصاویر بھی ہر وقت ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا ہے، لباس بھی انہی جیسا پہنتا ہے، اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر انہی کی تصاویر لگاتا ہے، یہ سب کچھ شیخ سے محبت کے اظہار کے لیے کرتا ہے، تو شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کیا یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے؟ میں نے کسی شیخ سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے! مشائخ سے محبت کے کیا ضوابط ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں مشائخ کے ساتھ کس قدر محبت ہونی چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل سنت و الجماعت کے مشایخ سے محبت کرنا اچھا عمل ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب اس محبت کی بدولت انسان دین پر مزید عمل پیرا ہونے والا بن جائے، ان کے علم اور دین استفادہ کرے۔ لیکن اس سب کے لیے شرط یہ ہے کہ اس میں غلو اور مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیے کہ جس کے نتائج اچھے نہ نکلیں، لہذا اگر کسی شیخ سے محبت کی وجہ سے انسان ان کے خطابات سنتا ہے اور جب وہ آئیں تو سننے کے لیے جاتا بھی ہے، انسان اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے، دین کو سمجھنے ، اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت کے سلسلے میں ان کی رفاقت اختیار کرتا ہے تو یہ شرعی محبت ہے، اور انسان جن لوگوں سے محبت کرتا ہے انہی کے ساتھ اسے اٹھایا جائے گا، نیز جو شخص جس قوم کی شکل و شباہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔

جیسے کہ صحیح بخاری: (6169) اور صحیح مسلم: (2641) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کسی قوم سے محبت تو کرتا ہے لیکن ان سے مل نہیں پایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انسان انہی کے ساتھ ہو گا جن سے محبت کرتا ہے۔)

اگر کسی شیخ سے محبت صرف دل لگی ، ملاقات اور دیکھنے کی حد تک ہو کہ ٹیلی ویژن اور مجلات وغیرہ میں شیخ کی تصویر کو دیکھا جائے، لیکن اس محبت کی وجہ سے انسان اللہ تعالی کے قریب نہ ہو، تو یہ محبت ملاوٹ والی مذموم محبت ہے۔

اور اگر کسی عالم دین کے ساتھ محبت ایسی ہے کہ انسان ان کے درس میں حاضر ہوتا ہے، ان کا لیکچر سنتا ہے، ان کی وجہ سے اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے، حصولِ علم کی تڑپ رکھنے والوں کے ساتھ رہتا ہے، ساتھ انہیں دیکھنے کی چاہت بھی دل میں ہوتی ہے کہ ان کی شکل دیکھے، اور انہی جیسا لباس پہنے اور چال ڈھال انہی جیسی بنائے، تو اگر اس محبت کا نتیجہ انسان کو نیکی اور بھلائی کی طرف جانے کی شکل میں آتا ہے تو یہ اچھی محبت ہے، اور اگر اس محبت کے نتیجے میں انسان حد سے تجاوز کرتا ہے تو یہ اچھی محبت نہیں ہے۔

چنانچہ اگر اس عالم دین میں کوئی شرعی خوبی ہے جس کی وجہ سے دل میں ان کے لیے محبت ہے تو اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے؛ بشرطیکہ محبت کی وجہ سے کوئی غیر شرعی کام نہ ہو کہ غلو، افراط و تفریط، یا مذموم تقلید یا غیر اخلاقی تعلق نہ ہو۔

واضح رہے کہ باطل کا سب سے بڑا راستہ نیک لوگوں کے متعلق غلو کرنا ہے؛ جیسے کہ سنن نسائی: (3057) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو دین میں غلو کرنے سے بچاؤ؛ کیونکہ آپ سے پہلے وہی لوگ ہلاک ہوئے ہیں جنہوں نے دین میں غلو سے کام لیا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن نسائی وغیرہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (اپنے آپ کو دین میں غلو کرنے سے بچاؤ) نظریاتی اور عملی ہمہ قسم کے غلو کے متعلق عام ہے، اور غلو یہ ہے کہ انسان کسی کی تعریف یا مذمت وغیرہ میں حد سے تجاوز کر جائے۔” ختم شد
“اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم” (ص 106)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آج کل لوگ کسی کے لیے “امام” کا لفظ بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں، حتی کہ ادنی اہل علم کو بھی “امام” کا لقب دیا جانے لگا ہے، یہ معاملہ اگر محض لفظوں تک ہوتا کوئی بات نہیں تھی، لیکن یہ معاملہ اب لفظوں سے معنی تک پہنچ گیا ہے؛ کیونکہ جب کسی انسان کو اس لفظ سے ملقب کیا جا رہا ہے تو یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ اس کا موقف دوسروں کے لیے قابل اقتدا ہے؛ حالانکہ وہ اقتدا کا مستحق ہی نہیں ہے۔” ختم شد
“الشرح الممتع” (1 /17)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“کسی شخص سے محبت کرتے ہوئے دل کو اس کی ذات سے ایسے منسلک کر لینا کہ اسے چھوڑ نہ سکے، اور اس سے اس حد تک متاثر ہونا کہ کوئی بھی وقت اس کی یاد کے بغیر نہ گزرے، تو یہ اللہ کے لیے محبت نہیں ہے، بلکہ یہ توحید میں خلل ہے۔” ختم شد
“فتاوى اللجنة الدائمة” (1 /472)

علمائے کرام سے محبت کو اللہ کے لیے محبت بنانے کا ضابطہ یہ ہے کہ: انسان اچھے اور نیکی کے کاموں میں ان کی اقتدا کرے، علمائے کرام کے ساتھ وقت گزارے اور ان کے دروس میں حاضر ہو، اور جب ضرورت ہو تو سوال کر کے تشنگی مٹائے، ان کے لیے ان کی عدم موجودگی میں دعا کرے، اور ان کے لیے تعریفی کلمات کہے، اور اسی طرح دیگر مثبت امور بجا لائے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (127838) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے علمائے کرام سے محبت کرتے ہوئے بھی میانہ روی اختیار کریں اور غلو کا شکار نہ ہوں، اعتدال اور میانہ روی دینی اور دنیاوی تمام امور میں اختیار کریں۔

آپ اپنے آپ کو کسی بھی عالم دین اور شیخ کے پیچھے اس قدر نہ لگائیں کہ وہ جو بھی کہیں آپ اسے مانتے جائیں، بلکہ آپ کا مقصد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کون آپ کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے پر گامزن کرتا ہے، آپ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ، سنت اور صحابہ کرام کی سیرت اور سنت پر چلیں؛ کیونکہ علمائے کرام اور مشائخ کی محبت ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ، دینِ محمدی اور شریعتِ محمدی کی محبت کے تابع ہے، لہذا علمائے کرام اور مشائخ عظام سے محبت ان کی شریعت اور دین کی پاسداری کے مطابق ہو گی۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب