الحمد للہ.
حیض کی حالت میں احرام باندھ کر آپ نے درست کیا، حیض یا نفاس کی حالت میں احرام درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ہاں اس وقت ولادت ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کیلئے اہل مدینہ کی میقات ذو الحلیفہ پہنچ چکے تھے، تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ اب میں [اسماء] کیا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (غسل کر کے لنگوٹ باندھ لوگ اور احرام کی نیت کر لو) مسلم: (1218)
اسی طرح حیض کی حالت میں طواف نہیں کیا یہ بھی آپ کا عمل درست ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو حج تمتع کا عمرہ کرتے ہوئے حیض آیا تو فرمایا تھا: (تمام کام کرو جو دیگر حجاج کرتے ہیں، صرف بیت اللہ کا طواف طہر کے بعد ہی کرنا)
بخاری: (1650) مسلم: (1211)
لیکن طواف سے پہلے سعی کر کے آپ نے غلطی کی؛ کیونکہ صحیح موقف کے مطابق طواف سے پہلے سعی کرنے کی اجازت صرف حج میں ہے، عمرے میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمرے کیلئے حیض کی حالت میں پہلے سعی نہیں کی، اور احرام کھولنے و بال کٹوانے کا مرحلہ طواف اور سعی دونوں مکمل کرنے بعد آتا ہے، چنانچہ طواف سے پہلے بال کٹوانا یا احرام کھولنا منع ہے، اور ایسا کرنے پر فدیہ لازم آئے گا۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مؤلف رحمہ اللہ نے طواف کے بعد سعی کو ذکر کیا ہے تو کیا سعی کیلئے شرط ہے کہ پہلے طواف کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: جی ہاں! چنانچہ اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کی تو اس پر دوبارہ سعی کرنا واجب ہے؛ کیونکہ سعی کو اس کے وقت سے پہلے کیا گیا ہے۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ : آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا: میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی حرج نہیں) تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رخصت حج کے بارے میں عمرے کے بارے میں نہیں ہے۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کام حج میں ثابت ہے وہی کام عمرے کیلئے بھی ثابت ہوگا، الّا کہ تخصیص کی کوئی دلیل مل جائے؛ کیونکہ طواف اور سعی دونوں چیزیں حج اور عمرہ میں یکساں رکن کی حیثیت رکھتی ہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ قیاس مع الفارق ہے؛ کیونکہ عمرے میں ترتیب آگے پیچھے کرنے سے مکمل عمرے میں خلل پیدا ہوگا؛ کیونکہ عمرے میں طواف، سعی، اور حلق یا تقصیر ہی ہوتا ہے، جبکہ حج میں ترتیب آگے پیچھے ہونے پر اس میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا؛ کیونکہ حج میں ایک ہی دن کے اندر پانچ اعمال کرنے ہوتے ہیں، اس لئے عمرے کو اس مسئلے میں حج پر قیاس کرنا درست نہیں ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے فقیہ عطاء ابن ابی رباح رحمہ اللہ نے طواف سے پہلے سعی کرنے کی اجازت دی ہے، اور اسی بات کے کچھ اور علمائے کرام بھی قائل ہیں
جبکہ کچھ اہل علم نے بھول چوک یا لاعلمی کی بنا پر طواف سے قبل سعی کو درست قرار دیا ہے، جبکہ جان بوجھ کر طواف سے قبل سعی کو درست قرار نہیں دیا" انتہی
" الشرح الممتع " (7/ 273)
جبکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ حج کی طرح عمرے میں بھی سعی طواف سے پہلے کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ:
"یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر ایک سائل نے یوم النحر کے اعمال رمی، قربانی، حلق یا تقصیر ، طواف و سعی، اور ترتیب آگے پیچھے ہونے سے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (کوئی حرج نہیں ہے) تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعی طواف سے پہلے کر لی تو کفایت کر جائے گی، لیکن سنت یہی ہے کہ طواف کے بعد سعی کرے، چنانچہ حج ہو یا عمرہ سنت یہی ہے کہ طواف پہلے اور سعی بعد میں" انتہی
"فتاوى ابن باز" (17/ 337)
اس بنا پر : طواف کرنے سے پہلے بال کٹوانا منع تھا جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے، لیکن آپ کے ذمہ کوئی فدیہ لازم نہیں آتا؛ کیونکہ آپ کو حکم کا علم نہیں تھا، چنانچہ آپ پر ابھی اپنے بال کاٹنا لازمی ہے۔
تاہم اگر آپ کیلئے مکہ جا کر طواف کرنا ممکن ہو اور اس کے بعد سعی کریں اور بال کٹوا کر احرام کھول دیں تو یہ عمل زیادہ محتاط اور افضل ہے، تا کہ آپ اپنے احرام سے یقینی طور پر حلال ہو جائیں اور آپ کا عمرہ کامل ترین صورت میں مکمل ہو، اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو آپ اپنے بال اب کاٹ لیں تو آپ کا عمرہ صحیح ہوگا۔ ان شاء اللہ
واللہ اعلم.