اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ موزہ ٹخنوں کو ڈھانپنے والا ہونا چاہیے؟

سوال

میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے ایک تحقیق تیار کی ہے، جس میں چاروں فقہی مذاہب کا کہنا ہے کہ: موزہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ٹخنہ ڈھک جائے، جبکہ میں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب میں دیکھا ہے کہ انہوں نے لکھا: ایسے موزے یا جوتے پر بھی مسح کیا جا سکتا ہے جو ٹخنے کو نا ڈھانپے، تو یہ موقف اجماع کے مخالف ہے۔ میں آپ سے امید کرتا ہوں اس مسئلے میں میری اصلاح فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

چاروں فقہی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ موزوں پر مسح کے لیے یہ ضروری ہے کہ موزے پاؤں کے اتنے حصے کو ڈھانپیں جسے وضو میں دھونا لازم ہوتا ہے، یعنی قدم کے ساتھ ٹخنوں کو بھی ڈھانپیں، اور اگر موزے ٹخنوں کو نہ ڈھانپیں تو وضو پر قیاس کی وجہ سے ان پر مسح کرنا صحیح نہیں ہو گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ محل فرض کا جو حصہ ظاہر ہے اسے دھونا لازم ہے، اور جس جگہ کو موزے نے ڈھانپا ہوا ہے اس پر مسح لازم ہے، تو اب ایک ہی عضو میں مبدل منہ اور بدل یعنی دھونا اور مسح کرنا یک جا نہیں ہو سکتے۔
مزید کے لیے دیکھیں: شرح "مختصر خليل" از الخرشی: (/179) ، حاشية قليوبي وعميرة(1/68) اور "الموسوعة الفقهية" (37/264)

دوم:
اس مسئلے میں کوئی اجماع نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے اہل علم میں اختلاف موجود ہے، چنانچہ بعض اہل علم نے ایسے موزے پر بھی مسح کرنے کی اجازت دی ہے جو ٹخنوں سے نیچے ہو، یہ موقف ابن حزم کا ہے اور امام اوزاعی سے بھی منقول ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم ایسے موزے پر مسح کرنے سے منع کرتے ہیں، جیسے کہ چاروں فقہی مذاہب کا موقف ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/180)میں کہتے ہیں:
"(مسح صرف موزوں پر کیا جائے گا، یا موزوں کے قائم مقام جو بھی چیز ہو ا س پر مسح کیا جا سکتا ہے جیسے کہ مقطوع [چھوٹی پنڈلی والا موزہ] وغیرہ ہیں جو ٹخنوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔) اس کا مطلب یہ ہے کہ -واللہ اعلم- موزوں کے قائم وہ چیز ہو گی جو محل فرض کو ڈھانپے، اسے پہن کر موزوں کی طرح چلنا ممکن ہو، وہ خود پاؤں کے ساتھ چمٹی رہے۔ مقطوع ایسے موزے کو کہتے ہیں جس کی پنڈلی مختصر سی ہوتی ہے، تو مقطوع پر مسح تبھی جائز ہو گا جب محل فرض کو ڈھانپے، اور ٹخنے اس میں سے نظر نہ آئیں؛ کیونکہ مقطوع ٹائٹ اور باریک ہوتا ہے۔ یہی موقف امام شافعی، اور ابو ثور رحمہما اللہ کا ہے۔ چنانچہ اگر موزہ وغیرہ ٹخنے کے نیچے سے کٹا ہوا ہو تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی امام مالک سے منقول صحیح موقف ہے۔ جبکہ امام مالک سمیت امام اوزاعی سے ایسے موزے پر مسح کرنے کا جواز بھی منقول ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں یہ بھی موزہ ہے اور اسے پہن کر مسلسل چلنا ممکن ہے، اس لیے یہ محل فرض کو ڈھانپنے والے موزے جیسا ہی ہوا۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ موزہ محل فرض کو نہیں ڈھانپ رہا اس لیے یہ چپل اور جوتوں جیسا ہو گا۔" ختم شد

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر موزے ٹخنوں کے نیچے سے کٹے ہوئے ہیں تو ان دونوں پر مسح کرنا جائز ہے، یہ امام اوزاعی کا موقف ہے کہ ان سے بیان کیا گیا کہ انہوں نے کہا: "احرام کی حالت میں ایسے موزوں پر مسح کرنا جائز ہے جو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹے گئے ہیں۔" جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ اس وقت تک موزے پر مسح نہیں ہو گا جب تک موزے ٹخنوں سے اونچے نہ ہوں۔
علی [یعنی ابن حزم] کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے موزوں پر مسح کرنے کا حکم صحیح ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جرابوں پر مسح کیا۔ اگر موزوں اور جرابوں کے حوالے سے کوئی حد معین ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ضرور بیان فرماتے، اسے مخفی نہ رکھتے، اس لیے جب تک کسی چیز کو موزہ یا جراب کہا جا سکتا ہے یا اسے پاؤں پر پہنا جا سکتا ہے تو اس پر مسح کرنا جائز ہے۔۔۔" ختم شد
"المحلى" (1/336)

کسی مسئلے میں چاروں فقہی مذاہب کا اتفاق ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس مسئلے میں اجماع ہے، لہذا اگر صرف خلفائے راشدین کا کسی موقف پر متفق ہونا اجماع نہیں کہلاتا تو ان سے نچلے درجے کے چار لوگوں کا متفق ہو جانا بالاولی اجماع نہیں کہلائے گا۔

الشیخ محمد الامین بن مختار الشنقیطی رحمہ اللہ کی کتاب "مذکرہ اصول فقہ " میں ہے کہ:
"جمہور اہل علم کے مطابق کسی بھی زمانے کے اکثر اہل علم کا کسی موقف پر متفق ہو جانا اجماع نہیں کہلاتا۔ ابن جریر طبری اور ابو بکر راوی کہتے ہیں کہ ایک یا دو کی مخالفت قابل اعتبار نہیں ہے، ان کی مخالفت سے اجماع میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اسی بات کی طرف امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ جمہور اہل علم کی دلیل یہ ہے کہ ان کے ہاں اجماع میں ساری امت کے اہل علم کا اجماع معتبر ہے؛ کیونکہ غلطی سے معصوم پوری امت کو کہا گیا ہے بعض کو نہیں کہا گیا، جبکہ دوسرے موقف والے اکثریت معتبر سمجھتے ہوئے چند لوگوں کے اختلاف کو قابل التفات نہیں سمجھتے۔" ختم شد
"مذكرة أصول الفقه" (1/156)

اسی میں یہ بھی ہے کہ:
"جمہور اہل علم کے ہاں چاروں خلفائے راشدین کا اتفاق اجماع نہیں ہے، جبکہ اس حوالے سے صحیح موقف یہ ہے کہ چاروں خلفائے راشدین کا اتفاق حجت ہے، اجماع نہیں ہے؛ کیونکہ اجماع سب کی طرف سے ہوتا ہے۔"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب