جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

مسلمان اللہ کے نبی عیسی [علیہ السلام] کا میلاد ایسے ہی کیوں نہیں مناتے جیسے اللہ کے نبی محمد [صلی اللہ علیہ وسلم ] کا مناتے ہیں؟

سوال

اگر مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام کا میلاد منانے میں کیا نقصان ہے؟ کیا عیسی علیہ السلام بھی اللہ کی طرف سے مبعوث نبی نہیں تھے؟
یہ بات میں نے کسی آدمی سے سنی تھی، تاہم میں جانتا ہوں کہ کرسمس منانا حرام ہے، لیکن مجھے مذکوہ سوال کا جواب چاہیے۔ اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بنی اسرائیل کیلئے عیسی علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے مبعوث نبی اور رسول ماننا اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے میں شامل ہے، اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام رسولوں پر ایمان نہ لے آئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ )
ترجمہ: اور سارے مسلمان بھی، (یعنی وہ) سب بھی ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، (اس بنیاد پر کہ) ہم اس کے رسولوں میں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے۔ [البقرة:285]

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"تمام  مؤمن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدانیت کا مالک ہے، وہ تنہا ہے، وہ بےنیاز ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنے والا ہے، یہ (ایمان والے) تمام انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں، تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، آسمانی کتابوں کو انبیاء کرام پر جو اتری ہیں سچی جانتے ہیں ۔ وہ نبیوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ ایک کو مانیں دوسرے کو نہ مانیں بلکہ سب کو سچا جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز طبقہ رشد و ہدایت والا اور لوگوں کی خیر کی طرف رہبری کرنے والا ہے"
"تفسير ابن كثير" (1 /736)

اور سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی ایک نبی کاانکار  سب انبیاء کا انکار ہے، بلکہ اللہ کے ساتھ کفر ہے" انتہی
"تفسير سعدی" (ص 120)

دوم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا جشن میلاد منانا بدعت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپکے بعد کسی صحابی نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مسلم ائمہ کرام میں سے کوئی بھی ایسا نہیں  ہے جو ایسی محفلوں میں شرکت تو دور کی بات ، اس کام کی صرف اجازت دے، یا کم از کم اسے مستحب سمجھے!، چنانچہ یہ کام حرام، بدعت، اور گناہ ہے۔

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام  کہتے ہیں:
"عید میلاد النبی کا جشن منانا حرام اور بدعت ہے؛ کیونکہ عید میلاد منانے کی کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی دلیل نہیں ہے، اور نہ ہی خلفائے راشدین اور پہلی تین افضل صدیوں میں  کسی نے اس قسم کا جشن منایا"
"فتاوى اللجنۃ الدائمۃ" (2 /244)

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (70317) اور (13810) کا مطالعہ کریں۔

چنانچہ مسلم عوام الناس ، اور جاہلوں کی طرف سے منایا جانے والا جشن عید میلاد النبی ایسی بدعات میں شامل ہے جن کا مقابلہ کرنا  اور روکنا ضروری ہے،  اور اس سے نئے سال  کی ابتداء میں منائے جانے والے جشن پر دلیل لینا    غلط  اور باطل ہے؛ کیونکہ   عید میلاد النبی منانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ  خود ساختہ بدعت ہے، اور جو بدعت کسی دوسری بدعت پر قیاس کر کے  ایجاد کی جائے تو وہ بھی بدعت ہی ہوگی۔

سوم:

عیسائیوں کی طرف سے منعقد کی جانےوالی کرسمس کی تقریبات  بذات خود شرک اور بدعت پرمبنی ہے، کسی بھی مسلمان کو انکی مشابہت اختیار کرنے کی  اجازت نہیں ہے، اور عیسی علیہ السلام عیسائیوں کی اس شرکیہ تقریب سے  بری الذمہ ہیں۔

مسلمانوں کی نسبت کرسمس منانا بدعت پر مستزاد  یہ کہ کفار کے مذہبی شعائر میں انکی مشابہت بھی  ہے، اور اسی مشابہت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
ابو داود: (3512) البانی نے اسے  صحیح سنن ابو داد میں صحیح کہا ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کی سند کو جید قرار دیتے ہوئے کہا:
"اس حدیث کا کم از کم یہ معنی ضرور ہے کہ کفار سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، اگرچہ اس حدیث کا ظاہری معنی کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے کے کافر ہونے کا تقاضا کرتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے: (وَمَن يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) [ترجمہ: اور جو ان کفار سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہے]" انتہی
"اقتضاء الصراط" (ص 82- 83)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ:
" کفر ، گناہ، اور کفار سے مشابہت  کا سر عام ہونا  دین الہی اور شریعت کے خاتمے  کی اصل وجہ  ہے، جیسے مسلمانوں  کے تمام  ترامور کی بھلائی  انبیائے کرام کی سنتوں اور شریعت پر کار بند رہنے میں ہے، اسی لئے جب کفار کی مشابہت کئے بغیر دین میں بدعات ایجاد کرنا سنگین ترین جرم ہے، تو اگر بدعت کے ساتھ کفار کی مشابہت بھی اس میں شامل ہو تو پھر کتنا سنگین گناہ ہوگا؟!"انتہی
"اقتضاء الصراط" (ص 116)

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفار کو ان کے مذہبی تہوار کرسمس وغیرہ  پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے؛ کیونکہ انہیں مبارکباد  دینے  میں انکے کفریہ نظریات  کا اقراراور ان سے رضا مندی کااظہار ہے، اگرچہ مسلمان اس قسم کے کفریہ نظریات اپنے لئے پسند نہیں کرتا، لیکن مسلمان کیلئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ کفریہ نظریات  پر تسلیم  رضا نہ کرے، نہ کفریہ نظریات پر مبارکباد دے کجا کہ ان  کے نظریات پر مشتمل تقریبات منعقد کرتے ہوئے  کفار کی مشابہت اختیار کرے ، یا تحائف کا تبادلہ کرے، یا مٹھائیاں تقسیم کرے، یا کھانے تیار کرے، اور عام تعطیل کرے یہ سب  حرام ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے) اس روایت کو ابو داود نے روایت کیا ہے"انتہی
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (3 /45-46)

کفار کے تہواروں میں شرکت کا حکم جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (1130) اور (145950) کا مطالعہ کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ : عیسوی سال کی ابتدا میں جشن منانا مسلمانوں کیلئے کئی اعتبار سے نقصان دہ ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1- اس میں مشرکوں اور کفار کی مشابہت ہے جو ان تقریبات کو اپنے شرکیہ اور کفریہ نظریات کی بنا پر  مناتے ہیں، بلکہ عیسی علیہ السلام  کی شریعت کی رو سے بھی جائز نہیں ہے؛  کیونکہ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی تقریبات  ان کے دین میں بھی جائز نہیں ہیں، چنانچہ یہ تقریبات اور تہوار شرک و بدعت کا ملا جلا شاخسانہ ہے، مزید برآں کہ اس کے ساتھ ساتھ ان محفلوں میں منعقد کیے جانے والے فسق و فجور  کے کام  بھی انکی برائی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں، تو ان سب امور میں ہم کفار کی مشابہت کیسے کر سکتے ہیں؟

2- جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا میلاد منانا خود ساختہ بدعت ہے، اس لئے  عید میلاد پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ جس وقت قیاس کی اصل ہی فاسد ہوگئی تو قیاس بھی فاسد ہو جائے گا۔

3- کرسمس کا تہوار منانا ہر حال میں گناہ کا کام ہے، کسی بھی انداز  سے اسے جائز نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ اس تہوار کی اصل بنیاد ہی غلط ہے اور اس میں کفر، فسق، اور گناہ کے کام کیے جاتے ہیں، چنانچہ ایسے  کسی فعل پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، اس لئے اس قیاس سے   جواز کا حکم نکالنا بالکل درست نہیں۔

4- اگر یہ قیاس درست ہو تو  یہ قیاس سب کیلئے عام ہونا چاہیے، اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ: ہم ہر نبی کی ولادت کا دن کیوں نہیں مناتے؟ کیا وہ بھی  اللہ کی طرف سے مبعوث انبیاء نہیں تھے؟ اور اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔

5- کسی بھی نبی  کی ولادت کا دن قطعی طور پر ثابت کرنا مشکل ہے، حتی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش بھی  متعین کرنا مشکل ہے، اس لئے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش  یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، اور مؤرخین اس دن کی تعیین کیلئے مختلف آراء رکھتے ہیں؛ جنکی تعداد نو یا اس سے بھی زیادہ ہے، چنانچہ تاریخی اور شرعی ہر دو اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یومِ پیدائش منانا باطل ہوجاتا ہے، اس لئے عید میلاد چاہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہو یا عیسی علیہ السلام کی اس کا معاملہ سرے سے  ہی بے بنیاد ہے۔

چنانچہ شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے دن جشن منانا تاریخی طور پر درست ہے اور نہ ہی شرعی طور سے درست ہے"انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (19 /45)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب