الحمد للہ.
اول:
فطرانہ ہر مرد ، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے ، بڑے مسلمان پر واجب ہوتا ہے؛ اسکی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ:
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک صاع کھجورکا ، یا جوکا فطرانہ واجب کیا ہے ہر مسلمان آزاد، غلام، مرد ،اور عورت پر "اسے بخاری (1503)اور مسلم (984)نے روایت کیا ہے۔
"مغنی المحتاج "(2/112) میں ہے کہ:
"کسی اصلی کافر پر فطرانہ نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں " ہر مسلمان " کے لفظ ہیں چنانچہ یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، اور اسی پر اجماع ہے، جیسے کہ ماوردی رحمہ اللہ نے بتلایا ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ فطرانہ اصل میں پاکیزگی کا ذریعہ ہے، جبکہ کافر پاکیزگی کا اہل نہیں ہے[یعنی: اسکے گناہ صاف نہیں ہوسکتے، کیونکہ کافر کے گناہ اسلام لانے سے ہی معاف ہوسکتے ہیں]"انتہی
ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ "المہذب" میں کہتے ہیں:
"مسلمان پر صرف مسلمانوں کا فطرانہ ہی واجب ہوتا ہے، چنانچہ اگر جسکی طرف سے فطرانہ دیا جائے گا وہ کافر ہے تو اس کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی وجہ سے کہ اس میں ہے: "مسلمانوں میں سے ہر مرد و عورت، آزاد و غلام پر "، اور ویسے بھی جسکی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے اسکے گناہوں کی صفائی مقصود ہوتی ہے، جبکہ کافر کے گناہوں کی صفائی نہیں ہوسکتی"انتہی
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام شافعی اور انکے شاگردوں کا کہنا ہے کہ: آدمی پر صرف مسلمان کا فطرانہ ہی واجب ہوگا، چنانچہ اگر کسی شخص کا کوئی ایسا رشتہ دار، یا بیوی، یا غلام ہو جنکا نفقہ تو اسکے ذمہ ہے لیکن وہ کافر ہیں تو ہمارے ہاں بلا اختلاف اس پر ان کفار کا فطرانہ واجب نہیں ہے، اسی کے امام مالک ، امام احمد، اور ابو ثور رحمہم اللہ جمیعا قائل ہیں"انتہی، مختصراً
"المجموع" (6/74)
حجاوی "زاد المستقنع " میں کہتے ہیں :"مسلمان اپنی طرف سے اور ایسے مسلمان کی طرف سے فطرانہ ادا کریگا، جسکا خرچہ اسکے ذمہ ہے"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/155) میں کہتے ہیں:
"مؤلف کی کلام سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کافر بیوی، اور کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا نہیں کیا جائے گا"انتہی
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:
کسی بھی مسلمان خاوند پر اپنی غیر مسلم بیوی کا فطرانہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ اعلم .