اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كفالت ميں يتيم بچے كا فطرانہ ادا كرنا واجب ہے

سوال

بہت سارے افراد يتيم بچوں كى كفالت كرتے ہيں، كيا انہ پر يتيم بچے كا فطرانہ ادا كرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فطرانہ ہر مسلمان بچے بوڑھے مرد و عورت پر فطرانہ ادا كرنا فرض ہے؛ اس كى دليل درج حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر آزاد اور غلام مرد و عورت مسلمان شخص پر رمضان المبارك ميں ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو فطرانہ فرض كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1504 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).

اس ليے يتيم بچے پر فطرانہ فرض ہوگا، كيونكہ وہ بھى عام لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

اس بنا پر جس كى كفالت ميں كوئى يتيم ہو تو وہ اس كا بھى فطرانہ ادا كريگا، اگر يتيم كا مال ہو تو اس كے مال سے فطرانہ ادا كيا جائے، كيونكہ اس كے مال ميں زكاۃ واجب ہے، كفالت كرنے والے پر يتيم كا فطرانہ واجب نہيں ہوگا؛ كيونكہ يتيم غنى اور مالدار ہے، اور اگر كفالت كرنے والا شخص اس بچے كا اپنى جانب سے فطران ادا كرتا ہے توا دائيگى ہو جائيگى اور اسے اجروثواب حاصل ہوگا، ليكن اس پر فرض نہيں كہا جائيگا.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس يتيم بچے كى ملكيت ميں مال ہو ہمارے نزديك اس كے مال ميں سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہوگا، جمہور علماء كرام جن ميں ابو حنيفہ اور امام مالك اور ابن منذر رحمہم اللہ شامل ہيں كا يہى مسلك ہے " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 6 / 109 ).

بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اوپر بيان كردہ حديث كى بنا پر ہر بچے بوڑھے مرد و عورت مسلمان شخص پر فطرانہ كى ادائيگى فرض ہيں... چاہے بچہ يتيم بھى ہو اس كے مال ميں سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہے امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 247 ).

ليكن اگر يتيم كا مال نہ ہو تو پھر فطرانہ اس كے رشتہ داروں ميں سے اس شخص پر فرض ہوگا جس كے ذمہ يتيم بچے كا نفقہ شرعا واجب ہے، ليكن كفالت كرنے والے پر لازم نہيں كيونكہ اگر اس گے ذمہ شرعا يتيم كا نفقہ واجب نہيں تو كفالت كى بنا پر يتيم كا فطرانہ ادا كرنا اس پر واجب نہيں ہو گا كيوكہ وہ تو اللہ كے ليے يتيم كى كفالت كر رہا ہے.

جمہور علماء كرام جن ميں امام ابو حنيفہ امام شافعى اور امام مالك شامل ہيں كا مسلك يہى ہے؛ ان كا كہنا ہے كہ فطرانہ ہر مسلمان شخص اور ہر اس شخص پر واجب ہے جن كے ذمہ ان كے اخراجات لازم ہيں، اور يتيم كى كفالت كرنے والا تو نفقہ اللہ كے ليے كر رہا ہے اس ليے يتيم كا فطرانہ اس پر فرض نہيں ہوگا، بلكہ جس كے ذمہ شرعا يتيم كا خرچ ہے فطرانہ بھى اس پر ہى واجب ہوگا.

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ جو كوئى شخص بھى رمضان المبارك ميں كسى دوسرے شخص پر كچھ خرچ كرے چاہے واجب نہيں بلكہ نفلى طور پر ثواب حاصل كرنے كے ليے تو اس شخص پر اس كا فطرانہ بھى ادا كرنا واجب ہوگا.

امام احمد رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ جس نے كسى يتيم كو اپنى كفالت ميں ليا تو اس پر ا س كا فطرانہ بھى واجب ہو گا، ليكن بعض حنابلہ " مثلا ابن قدامہ " نے اختيار كيا ہے كہ اس پر فطرانہ واجب نہيں، انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ كے سابقہ قول كو استحباب پر محمول كيا ہے "

ديكھيں: المغنى ( 4/ 306 ) اور الشرح الكبير ( 7 / 97 ).

حاصل يہ ہوا كہ: جس شخص پر يتيم كا نفقہ واجب نہيں اس پر اس كا فطرانہ ادا كرنا واجب نہيں ہوگا، بلكہ اگر يتيم بچے كا مال ہو تو اس كے مال سے فطرانہ ادا كيا جائيگا، اور اگر مال نہ ہو تو پھر اس كے جس رشتہ دار پر يتيم كا خرچ شرعا واجب ہے اس پر فطرانہ بھى واجب ہوگا.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب