الحمد للہ.
اول:
عورت كے ليے عمرہ بطور مہر شرط ركھنے ميں كوئى حرج نہيں.
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ ميں درج ہے:
" آپ كے ليے عمرہ بطور مہر ركھنے ميں كوئى حرج نہيں ہے؛ كيونكہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں روايت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك عورت ايك شخص كے ساتھ اس شرط پر كيا كہ آدمى كو جتنا قرآن مجيد ياد ہے وہ بيوى كو ياد كرا دے " انتہى
مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب
ممبر كميٹى: بكر ابو زيد
ممبر كميٹى : صالح الفوزان.
نائب رئيس: عبد اللہ بن غديان.
رئيس كميٹى : عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 150807 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
خاوند نے بيوى كو جو چيز بطور مہر دى ہے اس كے ليے اسے واپس لينا حلال نہيں، اور نہ ہى وہ بيوى كو واپس كرنے اور مہر سے دستبردار ہونے پر مجبور نہيں كر سكتا.
اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
اے ايمان والو تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم زبردستى عورتوں كے وارث بن جاؤ اور نہ انہيں اس ليے رو كركھو كہ تم نے انہيں جو كچھ ديا ہے اس ميں سے كچھ لے لو مگر اس صورت ميں كہ وكھلم كھلا بےحيائى كا ارتكاب كريں اور ان كے ساتھ اچھے طريقے سے رہو، پھر اگر تم نے انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے كہ تم ايك چيز ناپسند كرو اور اللہ اس ميں بہت بھلائى ركھ دے
اور اگر تم بيوى كى جگہ اور بيوى بدل كر لانے كا ارادہ كرو اور تم ان ميں سے كسى ايك كو خزانہ دے چكے ہو تو اس ميں سے كچھ بھى واپس نہ لو، كيا تم اسے بہتان لگا كر اور صريح گناہ كر كے لوگے
اور تم اسے كيسے لو گے جب كہ تم ايك دوسرے سے صحبت كر چكے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چكى ہيں النساء ( 19 ـ 21 ).
شيخ سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں لكھتے ہيں:
" اس كى وضاحت اس طرح ہے كہ بيوى نكاح سے قبل خاوند پر حرام تھى اور وہ اس مہر كے عوض ميں ہى اس كے ليے حلال ہونے پر راضى ہوئى ہے اس ليے جب خاوند اس سے دخول كرے اور وہ مباشرت كرے جو نكاح سے قبل اس كے ليے حرام تھى، جسے وہ خاوند كے ليے اس معاوضہ كے بغير خرچ كرنے كے ليے بھى راضى نہيں تھى، چنانچہ اس طرح معاوضہ كے عوض ميں دى جانے والى چيز پورى ہوئى تو پھر معاوضہ بھى دينا ہوگا.
يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ كوئى شخص معاوضہ كے مقابلہ ميں وہ چيز بھى حاصل كر ليتا ہے، اور پھر چيز لينے كے بعد معاوضہ بھى واپس طلب كرنا شروع كر دے ؟ يہ تو شديد قسم كا ظلم و ستم ہوگا " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 172 ).
عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جن شروط كے ساتھ تم شرمگاہيں حلال كرتے ہو وہ پورا كرنے كا زيادہ حق ركھتى ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).
ليكن اگر خاوند كے ليے وقت حاضر ميں عمرہ پر جانے ميں كوئى مانع اور سبب ہو تو اسے مؤخر كرنے ميں كوئى حرج نہيں بلكہ جب آسانى ہو عمرہ پر جايا جا سكتا ہے، اور اسى طرح اگر اس وقت عمرہ پر جانے كے ليے اخراجات نہيں ہيں تو بھى مؤخر كيا جا سكتا ہے.
اور اگر دونوں آپس ميں اتفاق كر ليں كہ عمرہ پر جانے كى بجائے بيوى كو عمرہ پر جانے كے اخراجات جتنا مال دے دے تو بھى كوئى حرج نہيں.
اور اگر بيوى اپنى رضامندى كے ساتھ سارا يا كچھ مہر خاوند كو چھوڑ ديتى ہے تو بھى جائز ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر بيوى اپنے خاوند كو سارا يا كچھ مہر معاف كر دے يا لينے كے بعد ہبہ كر دے تو يہ جائز ہے كيونكہ عورت كو اپنے مال ميں تصرف كا حق ہے تو يہ تصرف بھى صحيح ہوگا، ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
مگر يہ كہ وہ معاف كر ديں يعنى بيوياں اپن مہر معاف كر ديں.
اور ايك دوسرى آيت ميں ارشاد بارى تعالى ہے:
تو اگر وہ اپنى مرضى سے خود ہى تمہارے ليے چھوڑنے پر آمادہ ہو جائيں تو اسے كھا لو اس حال ميں كہ مزے دار خوشگوار ہے .
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: مروزى كى روايت ميں ہے كہ: مہر كے علاوہ كوئى بھى ايسى چيز نہيں جس كے بارہ ميں اللہ تعالى نے " تو اسے بڑے مزے اور خوشگوار حالت ميں كھالو " فرمايا ہو، يہ صرف عورت كى جانب سے خاوند كو ہبہ كردہ مہر كے متعلق ہى ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 196 ).
خاوند كو اللہ كا ڈر و تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنا وعدہ پورا كرنا چاہيے، وعدہ خلافى مت كرے؛ كيونكہ وعدہ خلافى تو منافقين كى صفات ميں شامل ہوتى ہے.
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں، مزيد آپ سوال نمبر ( 30861 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .