الحمد للہ.
اول:
جب خاوند اور بيوى ميں عليحدگى ہو جائے تو بچوں كى پرورش كا زيادہ حق ماں كو ہے، ليكن اگر ماں شادى كر لے تو يہ حق ساقط ہو جائيگا.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كا اتفاق ہے كہ جب خاوند اور بيوى عليحدہ ہو جائيں اور ان كا بچہ ہو تو جب تك عورت نكاح نہيں كرتى بچے كى پرورش كى زيادہ حقدار ہوگى.
اور اس پر بھى متفق ہيں كہ جب ماں شادى كر لے تو وہ بچے كى پرورش كا حق نہيں ركھتى " انتہى
ديكھيں: الاجماع ( 24 ).
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 153390 ) اور ( 8189 ) اور ( 5234 ) كے جوابات ميں ديكھيں.
دوم:
بچے كى پرورش ماں كا حق ہے اس ليے وہ سارے حقوق كى طرح بچے كى پرورش كا مطالبہ كر سكتى ہے، اور وہ اس سے دستبردار بھى ہو سكتى ہے، اس بنا پر اگر آپ دونوں ميں اتفاق ہوا ہے كہ بيوى حق پرورش سے دستبردار ہو جائيگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ مال لے كر اپنے حق پرورش سے دستبردار ہو يا بغير مال كے.
ابن رشد مالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بچے كى پرورش ماں كا حق ہے، چاہے تو وہ يہ حق لے سكتى ہے، اور چاہے اس سے دستبردار ہو جائے، اس سے منع كرنے كى كوئى وجہ نہيں؛ كيونكہ جب وہ دونوں متفق ہيں تو يہ آپس ميں صلح مانى جائيگى كہ بيٹا خاوند كے سپرد كر دے اور اپنا حق پرورش چھوڑ دے " انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن رشد ( 3 / 1546 ـ 1547 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تك تم نكاح نہ كرو تم اس كى زيادہ حقدار ہو "
اس ميں دليل پائى جاتى ہے كہ بچے كى پرورش كا حق ماں كو حاصل ہے، فقھاء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا يہ پرورش والے كا حق ہے يا اس پر حق ہے ؟
اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:
صحيح يہ ہے كہ پرورش ماں كا حق ہے، اور جب بچہ پرورش كا محتاج ہو اور ماں كے علاوہ كوئى اور نہ ہو تو يہ اس پر حق ہوگا، اور اگر ماں اور بچے كا سربراہ اسے منتقل كرنے پر متفق ہوں تو ايسا كرنا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 403 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پرورش كا حق حاضن كے ليے ہے اس پر نہيں، اس بنا پر جب وہ اس كے علاوہ كسى اور كو دينا چاہے تو يہ جائز ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 536 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" جب ماں اپن حق پرورش ساقط كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 19 / 2 ) مكتبہ شاملہ كى نمبرنگ كے مطابق.
واللہ اعلم .