اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

پانی میں رہنے والے جانور انڈے دینے والے ہوں یا بچے دینے والے سب حلال ہیں۔

182508

تاریخ اشاعت : 11-12-2014

مشاہدات : 36308

سوال

میں یہ جانتا ہوں کہ تمام پانی کے جانور حلال ہیں، لیکن ایک شخص کا کہنا ہے کہ "حوت" [وہیل یا ویل مچھلی] کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ بچے دیتی ہے، دیگر مچھلیوں کی طرح انڈے نہیں دیتی، اپنے اس دعوے کیلئے اس نے دلیل یہ دی کہ جیسے دریائی بچھڑا [Seal]، کچھوا، اور سمندری ہاتھی ۔۔۔ الخ کو کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی بچے دیتے ہیں، انڈے نہیں دیتے۔
تو کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ ان جانوروں کو کھانا جائز نہیں ہے؟ اور کیا اس بارے میں قرآن مجید یا صحیح احادیث میں کچھ بیان ہوا ہے؟
ایک اور بات یہ ہے کہ ہم سمندری مخلوقات میں حلال اور حرام میں فرق کیسے کریں گے؟ مثلا : شارک سمندر میں رہتی ہے، اس اعتبار سے یہ حلال ہے، لیکن یہ مچھلی خونخوار اور درندہ صفت بھی ہے، اس اعتبار سے اس جانور کو کھانا حرام ہوگا، کیونکہ خونخوار ، درندہ صفت جانوروں کو کھانا جائز نہیں ہے، مجھے تفصیل کیساتھ آگاہ کردیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ جو جانور صرف پانی ہی میں رہتے ہیں، انہیں زندہ مردہ، ہر حالت میں کھانا حلال ہے، کیونکہ فرمانِ الہی  عام ہے:
( أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ )  تمہارے لئے سمندر کا شکار  اوراسکا کھانا حلال  قرار دیا گیا ہے[المائدة: 96]

اور ابو داود  (83) میں  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سمندر کے بارے میں فرمایا: (سمندر [کا پانی] پاک کرنیوالا ہے، اور اسکا مردار حلال ہے) البانی نے "صحیح ابو داود " میں اسے صحیح کہا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"سمندر کے ایسے جانور جو فطرتاً پانی ہی میں رہتے ہیں، اصولی طور پر حلال ہیں"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22 /313)

چنانچہ سمندری جانوروں کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ  کوئی بھی جانور جو پانی کے بغیر نہیں رہتا، اسے کھانا حرام نہیں ہے۔

جبکہ  برمائی جانور[جو خشکی اور پانی دونوں جگہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں] وہ سب کے سب حلال نہیں ہیں۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (127963) کا بھی مطالعہ کریں۔

دوم:

"حوت" [وہیل یا ویل مچھلی] کھانا حلال ہے، کیونکہ یہ بھی مچھلی کی ہی ایک قسم ہے۔

چنانچہ لسان العرب (2/26)میں ہے کہ:
"حوت مچھلی کو کہتے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ بہت  بڑی مچھلی کو حوت کہتے ہیں"انتہی

ابن ماجہ: (3218) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (ہمارے لئے دو مردار حلال کر دئیے گئے ہیں:  مچھلی اور ٹڈی)اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ  نے "صحیح ابن ماجہ " میں صحیح کہا ہے۔

اور یہ بات پہلے ہی گزر چکی ہے کہ سمندر کے تمام [پانی والے]جانور حلال ہیں۔

اور صحیح بخاری : (4362) اور مسلم: (1935)  میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم  نے "جیش الخبط" کیلئے تیاری کی، اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا گیا، ہمیں اس دوران شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا، تو سمندر  نے بہت بڑی مچھلی کنارے لگا دی، ہم نے اتنی  بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی، اسے "عنبر" کہا جاتا تھا، ہم نے آدھا مہینہ اسکا گوشت کھایا، اور ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ نے اسکا ایک کانٹا پکڑ کر  [کھڑا کروایا] تو  ایک  سوار آدمی اسکے نیچے سے گزر گیا، [راوی کہتا ہے کہ ]مجھے ابو زبیر  نے کہا: میں  نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا  کہ ابو عبیدہ  نے ہمیں کہا: "مچھلی کو کھاؤ" جب ہم  مدینہ آئے تو ہم نے یہ سارا ماجرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی بیان کیا، تو آپ نے فرمایا: (اسے کھاؤ، یہ اللہ کی طرف سے تمہارئے لئے رزق ہے، اور اگر اس میں سے کچھ بچا ہوا ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ) تو صحابہ کرام نے  اپنے پاس بچا ہوا گوشت پیش کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تناول فرمایا۔

مچھلی کے انڈے یا بچے دینے کا  شرعی حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے شرعی حکم متاثر ہوگا، کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ پانی کا جو بھی جانور بچے جنے اور انڈے نہ دے اسے کھانا حرام ہے، بلکہ شرعی دلائل کا عموم  مطلق طور پر انہیں کھانے کی اجازت دیتا ہے، اور یہ دلائل سے واضح ہے، اس میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے۔

سوم:

شارک مچھلی بھی مندرجہ بالا دلائل کی وجہ سے حلال ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عام فرمان ہے کہ: (تمہارے لئے دو مردار، اور دو خون حلال قراد دئیے گئے ہیں، مردار سے مچھلی ، اور ٹڈی مراد ہے، جبکہ خون  سے جگر اور تلی مراد ہیں)ابن ماجہ: (3314) البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس مچھلی کے خونخوار  ہونے کی وجہ سے یہ حرام نہیں ہوگی، کیونکہ کچلی والے جانوروں کی حرمت خشکی کے جانوروں  کیلئے مختص ہے، چنانچہ پانی کے جانوروں پر یہ حکم لاگو نہیں ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"یہ بات درست نہیں ہے کہ جو کچھ خشکی میں حرام ہے اسی طرح کا جانور سمندر میں ہو تو وہ بھی حرام ہوگا، کیونکہ سمندر کے احکامات بالکل الگ ہیں، حتی کہ  کچھ ایسے جانور بھی ہیں جو کہ کچلی والے اور چیر پھاڑ کرنے والے ہیں، مثلا: شارک مچھلی۔۔۔، خلاصہ کلام یہ ہے کہ کہ کچھ چیزیں سمندر میں ایسی ہیں جو قتل کی حد تک خونخوار ہیں، لیکن اسکے باوجود وہ حلال ہیں"انتہی مختصراً
"الشرح الممتع" (15 /34)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"شارک مچھلی حلال ہے یا حرام؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، حتی کہ شارک وغیرہ سب حلال ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے: ( أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ )  تمہارے لئے سمندر کا شکار  اوراسکا کھانا حلال  قرار دیا گیا ہے[المائدة: 96] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ: (سمندر [کا پانی] پاک کرنیوالا ہے، اور اسکا مردار حلال ہے)"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22 /320)

مزید کیلئے سوال نمبر: (1919) ، اور (127963) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات