سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

دلالی اور کمیشن ایجنٹ سے متعلق مسائل و احکام

سوال

دو طرفہ کمیشن وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟ یا ایک سے لیا جائے لیکن دوسری پارٹی کو علم نہ ہو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
دلالی یا کمیشن فروخت کنندہ یا خریدار سے یا دونوں سے حسبِ شرائط یا عرف لیا جا سکتا ہے، یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے، چنانچہ اگر پیشگی شرط نہ رکھی گئی ہو نہ ہی کوئی عرف پایا جاتا ہو تو کمیشن کی رقم ان کے ہاں فروخت کنندہ پر ہو گی۔

ڈاکٹر عبد الرحمن بن صالح الاطرم حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کمیشن کی پیشگی شرط نہ لگائی گئی ہو، نہ ہی کوئی عرف پایا جاتا ہو تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کمیشن کی رقم وہی شخص دے گا جس نے اسے بطور دلال رکھا ہے ، چنانچہ اگر دکاندار کی طرف سے ہے تو پھر کمیشن وہی دے گا، اور اگر خریدار کی طرف سے ہے تو دلال کا کمیشن خریدار ہی دے گا، اور اگر دونوں نے ہی اسے اپنا مڈل مین بنایا ہو تو دونوں اسے کمیشن دیں گے۔" ختم شد
" الوساطة التجارية " ، ص 382

مزید کے لیے دیکھیں: "حاشية الدسوقي" (3/ 129)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (13/ 129) میں ہے کہ:
"دلال کی اجرت کتنی ہونی چاہیے؟ اس حوالے سے کافی اختلافات رہتے ہیں؛ کیونکہ کچھ دلال 2.5 فیصد وصول کرتے ہیں تو کبھی 5 فیصد، آپ ہمیں بتلائیں کہ شرعی طور پر دلال کی اجرت کتنی بنتی ہے؟ یا اس کا تعلق بائع یا مشتری کی دلال کے ساتھ باہمی رضا مندی سے ہے؟
جواب: اگر دلال کے ساتھ بائع، یا مشتری یا دونوں کا اتفاق ہو جائے کہ دلال اپنا کمیشن دونوں سے لے گا، یا مشتری سے یا بائع سے تو یہ جائز ہے، اس میں شرعی طور پر کوئی خاص تناسب مقرر نہیں ہے، بلکہ جس مقدار پر کمیشن دینے والا راضی اور متفق ہو جائے اتنی مقدار میں کمیشن لینا جائز ہے۔ تاہم اس کی مقدار لوگوں کے عرف کے مطابق ہونی چاہیے کہ دلال کو بھی بائع اور مشتری کے درمیان معاملہ طے کروانے میں اس کی دوڑ دھوپ کا فائدہ ہو، نیز کمیشن کی مقدار معمول سے بڑھ کر اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ دینے والے کو نقصان ہو۔" ختم شد
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔

دوم:
اگر دلال بائع یا مشتری دونوں میں سے کسی کی طرف سے کام کرے، تو دلال کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ دوسری پارٹی سے قیمت کے کم یا زیادہ کرنے پر خفیہ اتفاق مت کرے؛ کیونکہ یہ چیز دھوکا دہی، اور امانت میں خیانت کے زمرے میں آتی ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب دلال خود معاہدہ کر رہا ہو؛ کیونکہ اس صورت میں دلال محض دلال نہیں ہے بلکہ اپنے موکل کا وکیل ہے، اور وکیل امانتدار ہوتا ہے، اسے جتنا بھی فائدہ ہو وہ سارے کا سارا اس کے موکل کا ہوتا ہے۔ جیسے کہ "مطالب أولي النهى" (3/132) میں ہے کہ:
"دکاندار کا خریداری کرنے والے وکیل کو کوئی تحفہ دینا ، مثلاً: قیمت میں کمی کرنا وغیرہ تو اسے بھی عقد کا حصہ بنایا جائے گا؛ کیونکہ وکیل کو ملنے والا فائدہ اصل میں موکل کا ہوتا ہے۔" ختم شد

اور اگر دلال کا کام بائع یا مشتری تلاش کر کے دینا ہو، معاہد ہ کرنے کی اسے ذمہ داری نہ دی گئی ہو، نیز اسے بائع یا مشتری کو کسی خاص قیمت پر لانے کا بھی نہ کہا گیا ہو، بلکہ اسے یہ کہا جائے کہ جو اچھے سے اچھے ریٹ میں دے یا چیز لے اسے لے آؤ، تو اس صورت میں کسی ایک پارٹی کے ساتھ قیمت کم یا زیادہ کرنے کے حوالے سے خفیہ اتفاق کرنا دھوکا دہی اور خیانت ہو گا۔

اس وجہ سے کہ کچھ فقہائے کرام دلالی کو اجرت کے بدلے میں وکالت شمار کرتے ہیں۔
مزید کے لیے دیکھیں: ڈاکٹر عبد الرحمن بن صالح الاطرم کی کتاب: " الوساطة التجارية " ص 115

سوم:
اگر دلال خریدار یا دکاندار کے لیے مخصوص معاوضے پر کام کرے تو پھر دوسری پارٹی کو بتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے یہ معاوضہ قیمت میں شامل کر لیا جائے، بشرطیکہ مقدار اتنی زیادہ نہ ہو کہ جس سے دوسری پارٹی کو نقصان ہو تو نقصان کی وجہ سے زیادہ مقدار منع ہو گی۔

چنانچہ اگر دکاندار کسی دلال سے کہے: یہ چیز 100 کی فروخت کر دو اور تمہیں اس میں سے 10 ملیں گے، جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت 90 ہو تو پھر اگر خریدار اسے 100 میں خریدنے پر تیار ہو جائے تو اسے دلالی کا معاوضہ یا کمیشن بتلانے کی ضرورت نہیں ہے ؛ نیز اس میں کسی اور قسم کا دھوکا یا گاہک کو ورغلانہ شامل نہ ہو۔

فقہائے کرام کی ایک جماعت نے صراحت کے ساتھ بتلایا ہے کہ اگر بیع مرابحہ ہو تو پھر کمیشن کی رقم قیمت میں شامل کر کے بتلائی جائے گی، اور اگر کم سے کم قیمت میں خریداری کی صورت ہو کہ جس میں اصل قیمت بتلانا لازم ہی نہیں ہوتا تو اس میں تو بالاولی کمیشن کی رقم شامل ہو گی۔

چنانچہ کاسانی رحمہ اللہ نے بیع مرابحہ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا:
" قلی ، رنگ ساز، دھوبی، رسی بنانے والے، درزی، دلال، چرواہے، کرایہ، غلام کا کھانا، لباس اور دیگر ضروریات زندگی ، جانور کے چارے کے اخراجات وغیرہ کو اصل قیمت میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بطور مرابحہ یا وکالت فروختگی کی صورت میں عرف کے مطابق معاملات طے کیے جائیں گے؛ کیونکہ تاجروں کا یہ طریقہ کار ہے کہ اس قسم کے مالی اخراجات کو اصل قیمت میں شامل کرتے ہیں۔" ختم شد
"بدائع الصنائع" (5/ 223)

الشیخ خالد مشیقح حفظہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا کہ:
"مشرق وسطی کے ایک ملک میں میرا آفس ہے، جو کہ بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کا کام کرتا ہے، خریدار کسی بھی ملک سے میرے پاس آئے تو میں چیزوں کی خریداری اور پھر اسے کارگو کروانے میں اس کی مدد کرتا ہوں، اور اس کے عوض طے شدہ کمیشن وصول کرتا ہوں، تو کیا کمیشن وصول کرنا حلال ہے یا حرام؟ مثلاً: میں فیکٹری کے ساتھ معاہدہ طے ہونے اور مشتری کے راضی ہونے کے بعد میں اپنا کمیشن فیکٹری سے وصول کر لیتا ہوں، لیکن مشتری کو اس کمیشن کا علم نہیں ہوتا، تو کیا یہ جائز ہے؟
انہوں نے جواب دیا:
الحمد للہ وحدہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
جو کمیشن آپ وصول کرتے ہیں یہ دلالی کی اجرت ہے، اور اجرت بنیادی طور پر جائز ہوتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے معاہدوں کو پورا کرو۔ [المائدہ: 1] -اور اجرت کے عوض دلالی کرنا بھی جائز معاہدہ ہے، مترجم-اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ: وأحل الله البيع وحرم الربا ترجمہ: اور اللہ تعالی نے بیع حلال قرار دی ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔[البقرۃ: 275] اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (مسلمان اپنی شرائط کی پاسداری کرتے ہیں۔) اس حدیث کو ترمذی: (1352) وأبو داود (3594) وغیرہ نے عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ البتہ اگر اس میں کوئی اور شرعی مخالفت ہو تو جائز نہیں ہو گا، مثلاً: ملکی سطح پر کسی قانون کی مخالفت ہو، یا بائع یا مشتری عرف سے ہٹ کر کوئی معاملہ کرے۔۔۔ الخ، یعنی: اگر بائع یا مشتری دلال کے ساتھ کوئی ایسی بات طے کرتے ہیں جو عرف میں یا باہمی لین دین میں نہیں پائی جاتی، مثلاً عرف یہ ہے کہ : اگر دلال فیکٹری سے کمیشن لے تو مشتری سے نہیں لے سکتا یا اس کے الٹ تو پھر یہ جائز نہیں ہو گا۔ چنانچہ اگر ایسی کوئی مخالفت نہ ہو تو پھر اس کا حکم یہی ہے کہ دلالی جائز ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى الإسلام اليوم"

تاہم یہاں یہ ضروری ہے کہ : دلال اپنے فائدے کے لیے اپنا کمیشن اتنا زیادہ نہ رکھے کہ جس سے دوسری پارٹی بائع یا مشتری کو نقصان پہنچے۔

الشیخ محمد بن محمد مختار شنقیطی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص اپنی زمین ایک سو میں بیچنا چاہتا ہے، تو کسی نے مالک زمین سے کہا: میں آپ کی یہ زمین 120 میں فروخت کر دوں گا، اور خریدار کو بتلاؤں گا کہ مالک 120 ہی مانگ رہا ہے، تو 120 میں اس نے زمین فروخت کر دی اور اصل مالک کو 100 دے دئیے، بقیہ 20 خود رکھ لیے ، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

تو انہوں نے کہا: اس مسئلے میں متعدد مسائل ہیں:

زمین کے اصلی مالک نے جب آپ کو کہا کہ زمین 100 میں فروخت کر دو، تو پھر آپ کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق کو بھی مد نظر رکھیں، خصوصاً ایسی صورت حال میں جب آپ کو علم ہو کہ لوگوں کو زمین کی ضرورت ہے، یا آپ سے خریدنے والوں کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے، اس لیے اللہ تعالی سے ڈریں، تو یہ سب مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے۔

انسان کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان انتہا درجے کا لالچی اور مال کی ہوس رکھنے والا ہو کہ اپنے بھائیوں کی ضرورت اور حاجت کو بھی مد نظر نہ رکھے؛ کیونکہ اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ یہی معاملہ کرے تو اسے بھی اچھا نہیں لگے گا، تو مسلمان کی امتیازی صفت ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے، اور اپنے بھائیوں کے لیے بھی وہی چیز ناگوار سمجھتا ہے جسے اپنے لیے ناگوار سمجھے، اس لیے کم قیمت میں فروختگی کے امکان کی صورت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش میں مت لگا رہے۔۔۔ آپ رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ: افضل عمل یہ ہو گا کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرے، اور اپنے فائدے کے لیے مارکیٹ خراب مت کرے۔" ختم شد
"شرح زاد المستقنع"

یہاں یہ صورت بھی جواز سے مستثنی ہو گی کہ: اگر دلال کے ذریعے کوئی چیز خریدنے والا شخص دلال کا دوست یا قریبی رشتہ دار ہو، اور اسے دلال کے بارے میں پورا یقین ہو کہ اسے دھوکا نہیں دے گا، چنانچہ اگر قریبی کو دلالی یا کمیشن لینے کے بارے میں علم نہ ہو، اور دلال اپنے قریبی کو مبیع کی خوبیاں بیان کرے تو یہ اسے اندھیرے میں رکھنے کے مترادف ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر صلاح صاوی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

میں نے کچھ رقم بطور کمیشن وصول کی جبکہ مشتری کو اس کا علم نہیں تھا، تو کیا یہ حرام ہے یا حلال؟ تو انہوں نے جواب دیا:
الحمد للہ والصلاة والسلام على رسول الله ، وعلى آله وصحبه و من والاه؛ أما بعد:

دلالی کا کمیشن بنیادی طور پر حلال ہے کہ اگر جس چیز کا سودا دلال نے کروایا ہے وہ شرعی طور پر حلال ہو تو یہ جائز ہے، تاہم آپ نے جو سوال پوچھا ہے اس سوال کا جواب حالات کے مختلف ہونے پر الگ الگ ہو سکتا ہے، چنانچہ اگر مشتری آپ کے بارے میں یہ سمجھے کہ آپ اس کام کا معاوضہ نہیں لیں گے، بلکہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں گے؛ کیونکہ مشتری کے ساتھ آپ کا پہلے سے گہرا تعلق ہے تو ایسی صورت میں آپ کمیشن مت لیں؛ کیونکہ مشتری کو اس چیز کی بالکل بھی توقع نہیں ہے، چنانچہ اگر دلال جس کے ساتھ کام کر رہا ہے اس میں مذکورہ چیز نہیں پائی جاتی تو پھر دلال کا کمیشن حلال ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب