اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے۔

185266

تاریخ اشاعت : 15-01-2015

مشاہدات : 8529

سوال

سوال: امام بخاری رحمہ اللہ نے "تاریخ الصغیر ": (146) میں روایت کیا ہے کہ:
ہمیں عمرو بن محمد نے بیان کیا، انہیں يعقوب نے وہ کہتے ہیں انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے ابن اسحاق سے ، وہ کہتے ہیں مجھے یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبی عمرة انصاری نے بتلایا کہ میں نے خارجہ بن زيد بن ثابت سے سنا وہ کہہ رہے تھے: "میں نے دیکھا ہے کہ جوانی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران ہم میں سب سے لمبی چھلانگ والا وہی ہوتا تھا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر سے چھلانگ لگا کر گزر جاتا تھا "
شیخ اسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس اثر کی صحت ثابت کرنے کے بعد تعلیق چڑھائی ہے کہ: "یہ اثر سطح زمین سے قبر کو بلند کرنے کی دلیل ہے" تو اس اثر کی صحت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ قبر پرست لوگ اس اثر سے قبر پر تعمیر کرنے اور قبر کو بلند کرنے کی دلیل لیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ : دوسری حدیث جس میں قبر پر تعمیر سے ممانعت ہے وہ یہود و نصاری کیساتھ خاص ہے۔۔۔ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

امام بخاری نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ:
خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ:" میں نے دیکھا ہے کہ جوانی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران  ہم میں سب سے لمبی چھلانگ والا وہی ہوتا تھا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر  پر سے چھلانگ لگا کر گزر جاتا تھا" انتہی

امام بخاری نے اس اثر کو "تاریخ صغیر"(1/67) میں اور اسی طرح ابن عساکر نے اپنی "تاریخ" (15/396) میں  " ابن  إسحاق حدثني یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري قال سمعت خارجة بن زيد بن ثابت ۔۔۔ " کی سند سے ذکر کیا ہے۔

اور یہ سند ضعیف ہے، اس میں یحیی بن عبد الله الأنصاری مجہول ہے، اس سے صرف ابن اسحاق ہی روایت کرتا ہے کوئی اور اس سے روایت نہیں کرتا،  یحیی کا تذکرہ بخاری نے  "التاريخ الكبير" (8/284)  میں اور ابن أبي حاتم  نے "الجرح والتعديل" (9/162)  میں ، اور ابن حبان نے "الثقات" (7/603) میں کیا ہے ، اور صرف ابن اسحاق   کو اسکی  روایت بیان کرنے والا کہا ، نیز کسی نے بھی یحیی کو "ثقہ" نہیں کہا، چنانچہ ابن حبان کے "الثقات" میں ذکر کر دینے کی وجہ سے یحیی کی معتبر  توثیق نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ ابن حبان اپنی "الثقات" کتاب میں ایسے مجہول راویوں کو بھی ذکر کر دیتے ہیں جن کے بارے میں ابن حبان رحمہ اللہ کا اپنا یہ بیان ہوتا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، اور نہ ہی اسکے والد کو جانتا ہوں۔

دیکھیں ابن حبان کی کتاب: "الثقات": (4/146) اور اسی طرح : (6/418)

چنانچہ یہ یحیی مجہول ہے ، اسکی روایت معتبر نہیں ہو سکتی۔

اور امام بخاری نے اگر اس اثر کو اپنی صحیح میں معلق طور پر ذکر کر دیا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ اثر بخاری کے ہاں صحیح بھی ہے، امام بخاری کی شرط پر  ہونا تو دور کی بات ہے۔

یہ بات معروف ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح  کی معلقات میں ایسی مرویات بھی  ذکر کر دیتے ہیں جو کہ ضعیف ہی، اسی لئے کچھ کی طرف صیغہ تمریض  کے ذریعے اشارہ بھی کرتے ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"بخاری میں ذکر شدہ معلقات سب کی سب امام بخاری کے ہاں بھی صحیح نہیں ہیں، دوسروں کے نزدیک تو بعد کا معاملہ ہے" انتہی
"تمام المنّۃ" (ص 397)

اور معلقات بخاری کے بارے میں مطلق طور پر یہ کہنا کہ  : "بخاری نے اسے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے" درست  نہیں ہے، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ: "بخاری نے اسے معلق ذکر کیا ہے"، یا "بخاری نے اسے اپنی صحیح میں معلق طور پر ذکر کیا ہے" اسی طرح کی محتاط عبارت استعمال کی جائے گی؛ کیونکہ معلقات صحیح بخاری کی شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔

چنانچہ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہ کرام سے منقول بہت سی معلق  روایات ہیں، چنانچہ اگر کوئی متلاشی علم ان معلقات کو آگے بیان کرنا چاہے تو یہ مت کہے کہ: "اسے بخاری نے روایت کیا ہے" کیونکہ اس انداز کی تعبیر ان روایات کیلئے مختص ہے جو کہ مکمل سند کے ساتھ صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہیں، جبکہ معلقات میں  امام بخاری سند ذکر نہیں کرتے، بلکہ براہِ راست کہتے ہیں: "بخاری کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا" چنانچہ اس طرح کی احادیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ " اسے بخاری نے روایت کیا ہے" بلکہ اسے چاہئے کہ ساتھ میں یہ بھی کہے کہ : "بخاری نے اسے معلق طور پر نقل کیا ہے" انتہی
ماخوذ از: "دفاع عن الحديث النبوی" (ص 20)

دوم:

سائل بھائی کا کہنا کہ : "ابن حجر نے اس اثر کی صحت کو ثابت کیا ہے" درست نہیں ہے؛ بلکہ ابن حجر  رحمہ اللہ نے زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہے  کہ:
"مصنف[یعنی: امام بخاری] نے اسے "تاریخ صغیر " میں اس سند: ابن إسحاق حدثني یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري قال سمعت خارجة بن زيد بن ثابت ۔۔۔  کیساتھ موصول ذکر کیا ہے ، اور اس میں قبر کو کچھ اونچا، اور سطح زمین سے  ابھرا ہوا بنانے کی  اجازت ملتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (3/223)
ابن حجر رحمہ اللہ کی اس گفتگو میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس میں ابن حجر کی طرف سے اس اثر کی تصحیح  ملتی ہو۔

اس اثر کے ضعیف ہونے کیلئے یہ بھی دلیل ہے کہ خارجہ بن زید  بن ثابت رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر تابعی جو کہ  مدینہ کے سات فقہائے  کرام میں شمار ہوتے ہیں، انکا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر  کے اوپر سے پھلانگنا بعید  ہے، کیونکہ یہ ایک غلط  اور بیوقوف لوگوں کا کام ہے، جو کہ خارجہ بن زید  جیسا شخص نہیں کر سکتا، اور ویسے بھی روایت میں ذکر ہے کہ یہ جوانی کی عمر کا  واقعہ ہے، حالانکہ جوانی کی عمر میں  خارجہ  علم حاصل کرنے کیلئے  مشغول رہتے تھے، اور انکی اس عمر  میں علم حاصل کرنے کی مشغولیت  بہت سخت تھی، یہی وجہ تھی کہ انہیں  مدینہ منورہ کے ان گنے چنے فقہائے کرام میں شمار کیا جانے لگا جن سے فتوی لینے کیلئے رجوع کیا جاتا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا غلط فعل آپ سے صادر نہیں ہو سکتا۔

اور ویسے بھی  جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح ثابت ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر تحریر لکھنے، ان پر تعمیر کرنے، اور انہیں قدموں تلے روندنے سے منع فرمایا"
مسلم (970) ، أبو داود (3225) ، نسائی (2028) ، ترمذی (1052) یہ لفظ ترمذی  کے ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (اگر تم میں سے کوئی  انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے  اور جلد تک جل جائے ، یہ اس کیلئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے) مسلم: (971)

اسی طرح  مسند  احمد : (27918) میں عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (قبر سے ہٹ جاؤ، اور قبر والے کو تکلیف مت دو)

البانی رحمہ اللہ  نے اسے "الصحیحہ" (2960) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبر پر اس طرح چھلانگ لگانے سے قبر والے کو تکلیف ہوگی۔

سوم:

پہلے سوال نمبر: (83133) اور (124600) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ سطح زمین  سے ایک بالشت کے برابر قبر کو اونچا بنانا شرعی طور پر جائز ہے، اس سے زیادہ نہ کیا جائے، اور  اس پر  کچھ تعمیر بھی نہ کیا جائے۔

اور "الموسوعۃ الفقهیۃ" (11/342) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کے ہاں قبر پر ایک بالشت  تک مٹی  چڑھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور کچھ فقہائے احناف کے ہاں اس سے تھوڑی سی زیادہ مٹی  ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے، صرف اس لئے کہ پتا چلے کہ یہ قبر ہے، چنانچہ اسکی اہانت سے بچا جائے ، اور قبر والے کیلئے رحمت کی دعا کی جائے" انتہی
اسی طرح دیکھیں: "الموسوعۃ الفقهیۃ" (32/250)

چنانچہ گزشتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے قول کو بھی اسی معنی اور مفہوم پر محمول کیا جائے گا جس میں انہوں نے کہا تھا: " اور اس میں قبر کو کچھ اونچا، اور سطح زمین سے  ابھرا ہوا بنانے کی  اجازت ملتی ہے "

چہارم:

قبروں پر کچھ تعمیر کرنا بُرے افعال، اور قبروں سے متعلق ثابت شدہ سنت کے بر خلاف خود ساختہ بدعات میں سے ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے قبروں پر عمارت کی ممانعت ثابت ہے، اور ویسے بھی قبروں پر عمارت بنانا قبروں میں موجود افراد کی تعظیم کا ذریعہ ہے، اور قبروں میں مدفون لوگوں کی تعظیم اللہ کے ساتھ شرک  کا ایک دروازہ ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"قبروں پر تعمیر کرنا منکر بدعات میں سے ہے، اور اس میں قبر والے کی تعظیم  کیلئے غلو بھی ہے جو کہ اللہ کیساتھ شرک کا ذریعہ ہے، اس لئے مسلم حکمران یا  اس کے قائم مقام افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبروں پر موجود عمارت  وغیرہ گِرا دینے کے احکامات جاری کریں، اور قبروں کو زمین کے برابر کر دیں؛ تا کہ اس بدعت کا خاتمہ ہو سکے، اور شرک کے ذرائع بند کئے جا سکیں" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /413)

مزید کیلئے  سوال نمبر: (8991) اور (130919) کا مطالعہ کریں

پنجم:

سائل  کا  قبر پرستوں سے نقل کرتے ہوئے کہنا: " دوسری حدیث جس میں قبر پر تعمیر سے ممانعت ہے وہ یہود و نصاری کیساتھ خاص ہے "

یہ بے تکی  اور بے عقلی والی بات ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یہود و نصاری کو قبروں پر بنانے سے کیوں روکے گے؟!

بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ : قبروں پر عمارت بنانے کی  ممانعت اس لئے ہے کہ یہ  کام یہودی اور عیسائی کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ لوگ یہ کام کرنے کے بعد شرک میں مبتلا ہوگئے؛ جیسے کہ صحیح بخاری: (434) اور صحیح مسلم: (528) میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک کلیسا  کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کے علاقے میں دیکھا تھا، اس کا نام : "ماریہ" تھا، تو انہوں نے اس میں موجود تصاویر کا بھی ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "ان لوگوں میں جب کوئی نیک بندہ یا آدمی فوت ہو جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا  کر اس میں انکی تصاویر بناتے تھے ، یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں"

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (26312) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب