سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سفر شروع کرنے سے پہلے گھر میں روزہ توڑ لیا، پھر اپنی بیوی سے جماع بھی کیا، اب اس پر کیا لازم ہے؟

سوال

سوال: میں نے آج سفر کیلئے جانا تھا، تو میں نے اپنے گھر میں ہی روزہ توڑا، اور اپنی بیوی سے جماع کیا، تو مجھ پر کیا ہوگا؟ یاد رہے کہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ کفارہ صرف اسی دن کی قضا دینے سے ادا ہوجائے گا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے پڑیں گے، یا دس مساکین کو کھانا کھلانا پڑے گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کتاب و سنت، اور اجماع سے دلائل ملتے ہیں کہ مسافر شخص رمضان میں روزہ ترک کرسکتا ہے، پھر بعد میں جتنے دن کا روزہ ترک کیا ہو، اتنے دنوں کی قضا دے گا، اس کی دلیل میں فرمانِ باری تعالی ہے:

ترجمہ: (اور جو شخص مریض تھا، یا سفر پر ، تو وہ دیگر ایام میں روزہ رکھے) البقرہ/185

اور جو شخص اپنے علاقے میں ہو، تو اس وقت تک مسافر نہیں کہلائے گا جب تک اپنے شہر کی آبادی سے باہر نہ آجائے، اس لئے صرف سفر کی نیت کرنے کی بنا پر سفر کی رخصتوں یعنی روزہ ترک ، اور نماز قصر کرنے پر عمل نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اللہ تعالی نے روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ مسافر کو دی ہے، اور انسان اس وقت تک مسافر نہیں ہوتا جب تک اپنے علاقے کی آبادی سے باہر نہ چلا جائے۔

ابن قدامہ "المغنی" (4/347) میں مسافر کیلئے روزہ افطار کرنے کی اجازت کے بارے میں گفتگو کرنے کے بعد کہتے ہیں:

"اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک شہری آبادی سے باہر نہ آجائے، اور حسن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: "جس دن اس نے سفر کرنا ہے ، اس دن اپنے گھر ہی میں روزہ میں چھوڑ سکتا ہے" اسی کے مطابق عطاء رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے، جبکہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: حسن رحمہ اللہ کا موقف شاذ ہے، چنانچہ آثار ، اور علمائے کرام کی رائے کی روشنی میں کسی کیلئے اقامت کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، اور ویسے بھی حسن بصری رحمہ اللہ سے اسی قول کے مخالف موقف بھی منقول ہے"

اس کے بعد ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"[پہلے موقف کی دلیل ] فرمانِ باری تعالی ہے:

ترجمہ: (جو بھی ماہِ رمضان میں حاضر ہو، تو وہ روزہ رکھے)البقرہ/ 185، اور یہ شخص [جو ابھی اپنے گھر میں ہے] مقیم ہے ابھی مسافر نہیں بنا، چنانچہ اس وقت تک اسے مسافرنہیں کہا جاسکتا جب تک اپنے شہر سے باہر نہیں چلا جاتا، لہذا جس وقت تک شہر میں موجود ہے اس پر مقیم لوگوں کے احکامات جاری ہونگے، اس لئے وہ نمازیں قصر نہیں کرسکتا"انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سفر کی نیت کی اور لا علمی کی بنا پر گھر میں ہی روزہ افطار کرلیا، اور پھر اسکے بعد سفر کیلئے نکل کھڑا ہوا، تو کیا اس پر کفارہ ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا: "اس کیلئے گھر میں رہتے ہوئے روزہ افطار کرنا حرام ہے، اور اگر اس نے سفر پر نکلنے سے کچھ پہلے افطار کیا تو اس پر صرف قضا لازم ہوگی"انتہی

" فتاوى الصيام " (ص 133)

دوم:

جس مقیم شخص نے رمضان میں دن کے وقت جماع کیا، تو اس پر کفارہ مغلظہ ہوگا، جس میں غلام آزاد کیا جائے گا، اور اگر میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہونگے، اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا، اسکے ساتھ ساتھ اپنے گناہ کی توبہ اور اس دن کی قضا بھی دینا ہوگی۔

عورت کو بھی رضا مندی کی حالت میں یہی کچھ کرنا ہوگا، جماع -یعنی مردانہ عضو نسوانی نازک عضو میں داخل –ہوجائے چاہے انزال ہو یا نہ ہو، کفار عائد ہوجائے گا۔

سوم:

جس لا علمی کی بنا پر کسی انسان کو معذور سمجھا جا سکتا ہے وہ ہے شرعی حکم کے متعلق لا علمی، چنانچہ جو شخص کسی واجب کو چھوڑ دیتا ہے، اور اسے علم نہیں ہے کہ یہ واجب ہے ، یا پھر کسی حرام کام کا ارتکاب کرلیتا ہے، اور اسے نہیں معلوم کہ یہ کام حرام ہے، تو ایسا شخص لا علمی کی بنا پر قابل عذر سمجھا جاتا ہے۔

چنانچہ آپکی صورت حال میں آپکو اس وقت قابل عذر سمجھا جائے گا جب یہ ہی معلوم نہ ہو کہ روزے کی حالت میں سرے سے جماع کرنا حرام ہے، یا آپ یہ سمجھتے ہوں کہ جس شخص نے سفر کی نیت کر لی تو وہ یہ کام اپنے گھر ہی میں کرسکتا ہے، لیکن جس شخص کو یہ علم ہو کہ یہ کام حرام ہے، لیکن اسے حرام کام پر ملنے والی سزا کے بارے میں علم نہیں ہے، اور وہ گناہ کی صرف حرمت جانتے ہوئے بھی ارتکاب کرتا ہے، تو اسے قابل عذر نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ اس شخص نے گناہ کو حرام جانتے ہوئے اسکا ارتکاب کیا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ جس صحابی نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کیا تھا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارہ عائد کیا، اور کفارے سے لاعلمی کو اسکے لئے عذر کا باعث نہیں سمجھا، اس واقعہ کو بخاری: (1834) اور مسلم (1111) نے روایت کیا ہے، کیونکہ اس صحابی نے عمدا، اور جماع کی حرمت جانتے ہوئے یہ کام کیا تھا، جیسے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے " فتح الباری" ( 4 / 207 ) میں کہا ہے کہ: صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر کہا تھا: "میں برباد ہوگیا" اور ایک رویات میں الفاظ ہیں : "میں آگ میں چلا گیا"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا کیا وہ [کفارے کے بارے میں ]لاعلم نہیں تھا؟

اسکا جواب یہ ہے کہ: حقیقت میں وہ اس پر عائد ہونے والے کفارے سے لا علم تھا ، اس بات کا اسے علم تھا کہ [روزے کی حالت میں ]جماع حرام ہے، ا سی لئے تو وہ کہہ رہا تھا: "میں برباد ہوگیا"، اور ہم اگر عذر بالجہل کے قائل ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس حرام کے ارتکاب پر مرتب ہونے والی سزا سے لاعلمی کو عذر بنا رہے ہیں، بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ، اس کام کے حکم سے لاعلمی ہم مراد لیتے ہیں، کہ [اسے نہیں معلوم]کیا یہ کام حرام ہے یانہیں؟۔۔۔ چنانچہ حرام کام پر مرتب ہونے والی سزا سے لا علمی عذر نہیں بن سکتی، جبکہ کسی کام کے حرام ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں لاعلمی عذر بن سکتی ہے" انتہی مختصرًا

" الشرح الممتع "(6/417)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ :

آپ کو اس دن کی قضا دینا ہوگی، اور آپ کے سفر پر جانے سے پہلے روزہ توڑنے کی وجہ سے کفارہ بھی عائد ہوگا۔

تو آپکے لئے نصیحت ہے کہ آپ سردیوں کے دنوں میں یا معتدل موسم میں مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی کوشش کریں، کیونکہ ان ایام میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے کم مشقت اٹھانی پڑے گی، یا پھر ڈیوٹی سے ملنے والی سالانہ چھٹیوں وغیرہ میں روزے رکھو، اور ایسے مواقع کو اپنے واجبات ادا کرنے کیلئے غنیمت جانو۔

اور اگر پھر بھی آپ واقعی روزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو آپ کیلئے ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا جائز ہوگا، آپ یکبار کھلا دیں یا قسط وار کھلا کر ساٹھ مساکین کی تعداد مکمل کر لیں۔

آپکی بیوی پر بھی روزے لازم ہیں، اور اگر وہ بھی روزوں کی استطاعت نہ رکھے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دے، [نوٹ] سوال میں مذکور دس مساکین کو کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا، جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (106532) کا بھی مطالعہ کریں۔

و اللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب