جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

کیا رزق میں اضافے کے لیے کوئی مخصوص نماز ہے؟

سوال

دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر رکعت میں سورت الفاتحہ ایک بار پڑھیں اور سورت اخلاص پڑھیں، لمبے رکوع اور سجدے کریں اور دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کہیں: { يا ماجد يا واحد يا كريم ، أتوجه إليك بمحمد نبيك نبي الرحمة صلى الله عليه وآله ، يا محمد يا رسول الله ، إني أتوجه بك إلى الله ربي وربك ورب كل شيء وأسألك اللهم أن تصلي على محمد وأهل بيته وأسألك نفحة كريمة من نفحاتك ، وفتحا يسيرا ورزقا واسعا ألم به شعثي وأقضي به ديني وأستعين به على عيالي} کیا یہ درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحیح احادیث کے ذخیرے میں ایسی کوئی نماز نہیں ہے جو رزق میں اضافے کے لیے ہو، سوال میں دعا کے ساتھ جس نماز کے بارے میں پوچھا گیا ہے یہ بدعتی نماز ہے، یہ اللہ کے دین میں اضافہ ہے جس کی اللہ تعالی نے قطعاً کسی کو اجازت نہیں دی، یہ ممنوعہ خود ساختہ بدعات میں سے ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت و الجماعت ہر ایسے قول و فعل کو بدعت کہتے ہیں جو صحابہ کرام سے ثابت شدہ نہ ہو؛ کیونکہ اگر وہ قول یا فعل اتنا اچھا ہوتا تو حضرات صحابہ کرام اسے ضرور کرتے؛ کیونکہ صحابہ کرام نے خیر کا کوئی بھی ذریعہ نہیں چھوڑا سب پر عمل کر کے دکھایا ہے۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (7 / 278-279)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"عبادات میں بہت سی بدعات آج کل شامل کر دی گئی ہیں، حالانکہ عبادات کے بارے میں بنیادی اصول منع ہے، اس لیے وہی چیز عبادت ہو سکتی ہے جس کے کرنے کی دلیل موجود ہو، چنانچہ جس عمل کی دلیل نہ ہو تو وہ بدعت ہو گا؛ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔) متفق علیہ ۔ اور بے دلیل کی جانے والی عبادات اس وقت بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ ۔۔۔" ختم شد
"كتاب التوحيد" (160)

دوم:
اس بدعتی نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے کہنا: { أتوجه إليك بمحمد نبيك نبي الرحمة صلى الله عليه وآله يا محمد يا رسول الله إني أتوجه بك إلى الله ۔۔۔} ، یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں بدعتی ممنوع وسیلہ ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3297 ) کا جواب ملاحظہ کریں، یہاں پر شرعی اور بدعتی وسیلے کی وضاحت کی گئی ہے۔

اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مشکل کشائی یا حاجت روائی کے لیے اپنی دعا میں پکارتا ہے، یا کسی اور کو پکارتا ہے تو وہ شخص شرک اکبر کا مرتکب ہو رہا ہے جس کی وجہ سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ مانگے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (114142 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:
رزق میں اضافے کے لیے شرعی اسباب اور ذرائع بھی موجود ہیں، یہاں ان کی طرف اشارہ بھی مناسب ہو گا، تا کہ رزق میں اضافے کے شرعی اسباب کو لوگ اپنائیں اور اضافۂ رزق کے خود ساختہ طریقوں سے دور رہیں:

  • استغفار کرنا؛ جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا * يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا  ترجمہ: تو میں نے کہا: تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو؛ یقیناً وہ ہمیشہ سے بخشنے والا ہے ٭ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا ٭ اور تمہاری دولت اور نرینہ ذریت کے ذریعے امداد کرے گا، اور تمہارے لیے باغات بنا دے گا، مزید تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔ [نوح: 10 - 12]
  • صلہ رحمی کرنا، اس کی دلیل سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص کو اچھا لگے کہ اس کا رزق بڑھا دیا جائے اور اس کی عمر لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2067) اور مسلم : (2557) نے روایت کیا ہے۔
    امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث میں مذکور { بَسْط الرِّزْق} کا مطلب ہے وسیع اور ڈھیروں رزق۔ ایک موقف کے مطابق رزق میں برکت مراد ہے۔ ختم شد
  • کثرت سے صدقہ کرنا؛ فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ترجمہ: کہہ دیجیے: یقیناً میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ فرما دیتا ہے، اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دیتا ہے۔ تاہم تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں لوٹا دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ [سبأ: 39]
    اسی طرح صحیح مسلم : (2588) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (صدقہ کرنے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔)
    علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    "اس حدیث کا دو طرح کا مفہوم ذکر کیا گیا ہے: ایک تو یہ ہے کہ مال میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اس مال سے نقصان پہنچانے والی چیزوں کو دور ہٹا دیا جاتا ہے، اس طرح پیدا ہونے والا نقص مخفی برکت کی وجہ سے پورا ہو جاتا ہے، یہ چیز تو مشاہداتی اور واقعاتی ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ: اگرچہ صدقہ کرنے سے مال کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن جو اس کے بدلے میں اجر ملے گا وہ اس کمی کو محض پورا ہی نہیں کر ے گا بلکہ کئی گنا زیادہ اجر ملے گا۔" ختم شد
  • تقوی الہی اپنانا، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا * وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اپنائے تو اللہ تعالی اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے امید بھی نہیں ہوتی۔ [الطلاق:2، 3]
  • کثرت سے حج و عمرے کرنا، اور تسلسل کے ساتھ کرنا؛ جیسے کہ جامع ترمذی: (810) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (حج اور عمرے تسلسل کے ساتھ کیا کرو؛ کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہ ایسے مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کی ملاوٹ الگ کر دیتی ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔
  • رزق میں اضافے کی دعا کرنا، اس کی دلیل سنن ابن ماجہ: (925) کی روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتی ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو سلام کے وقت کہتے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَيِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے علم نافع، پاکیزہ رزق اور مقبول نیکیوں کا سوال کرتا ہوں۔ ا س حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب