اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جو شخص ہمیشہ سفر کی حالت میں رہتا ہو، کیا اسکے لئے سفر کی رخصتیں اپنانا درست ہے؟

192168

تاریخ اشاعت : 25-09-2013

مشاہدات : 16326

سوال

ہم تیونس کی ایک کشتی رانی کمپنی کے ملازم ہیں، تیونس سے اٹلی آنا جانا رہتا ہے، تیونس واپس پہنچنے پر اسی دن ہمیں فرانس بھی جانا پڑتا ہے، ہفتے میں ایک دن چھٹی کا ہے، ہماری یہی روٹین تین چار ماہ تک مسلسل رہتی ہے۔ تو کیا ہم مسافر کی طرح نمازیں قصر اور جمع کرسکتے ہیں؟
جب ہم تیونس پہنچتے ہیں تو ہمیں اسی دن سفر کرنے کیلئے دوسری کشتی کا انتظار کرنا ہوتا ہے جبکہ انتظار کا درانیہ تقریباً چار گھنٹے ہوتا ہے۔
کیا ہمارا حکم اس دوران مسافر والا ہوگا؟
یاد رہے کچھ ملازم ایسے بھی ہیں جو بندرگاہ کے بالکل قریب ہی رہتے ہیں۔ چھٹی کے دن کچھ لوگ گھروں کو نہیں جاتے اس لئے کہ انکا گھر بہت دور ہے، تو کیا وہ بھی مسافر ہی کہلائے گا؟
اگر ہم مسافر ہیں تو کیا ہم کشتی تک آتے ہوئے راستے میں قصر نماز ادا کرسکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

ہمیشہ سفر کی حالت میں رہنے والے مسافر مثلا: کشتیوں کے ملّاح، ریل گاڑی، ٹیکسی ڈرائیور، ہوائی جہازوں کے پائلٹس، یہ سب لوگ دوران سفر مسافروں کو دی گئی رخصتوں پر عمل کرسکتے ہیں، اور یہ لوگ اپنی رہائش گاہ پر پہنچنے کے بعد نمازیں مکمل ادا کریں گے؛ اس لئے کہ انکا سفر ختم ہوچکا ہے، ایسے ہی جمہور علماء کے مطابق انہیں کسی علاقے میں چار دن یا اس سے زیادہ نیتِ اقامت پر بھی نماز مکمل ادا کرنی ہوگی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص ہمیشہ سفر میں رہتا ہوں اور اسکی کسی علاقے میں اپنی رہائش بھی ہو تو ایسا شخص نماز قصر کریگا اور روزے بھی چھوڑ سکتا ہے، مثلا: ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک سامانِ تجارت لے جانیوالے تاجر حضرات، ایسے ہی تاجر حضرات کو کرائے پر اپنے جانوروں کی سہولت فراہم کرنے والے لوگ، ڈاکیہ جو مسلمانوں کی خدمت کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں، اور ایسے ہی ملّاح حضرات جنکا خشکی پر اپنا رہائشی گھر ہو وہ بھی نماز قصر کر سکتا ہے اور روزے چھوڑ سکتا ہے، لیکن ایسا شخص جسکے ساتھ کشتی میں اسکی بیوی بھی ہو اور تمام سہولیات ہوں پھر اسکے ساتھ وہ ہمیشہ سفر ہی میں رہے تو ایسا شخص نمازیں مکمل ادا کریگا اور روزے بھی رکھےگا" انتہی، "مجموع الفتاوی" (25/213)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: "اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ہمیشہ سفر کی حالت میں رہتا ہے، مثلا: مختلف شہروں کو جانے والے ڈرائیور حضرات، ان کیلئے نماز قصر کرنا افضل ہےیا مکمل ادا کرنا افضل ہے؟ اسی طرح سفرکی بقیہ رخصتیں انکا کیا حکم ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا؛ "ایسے مسافر جو ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں مثلا: ٹیکسی ڈرائیور، اونٹوں پر سفر کرنے والےلوگ، اگر نماز قصر کرنے کی مسافت کے برابر سفر کریں تو یہ نمازوں کو جمع بھی کر سکتے ہیں، چنانچہ جب اپنے شہر واپس آجائے تو جمع یا قصر نہیں کریگا، ایسے ہی جب کسی ایسے شہر میں پہنچ جائے جس میں وہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنا چاہتا ہو تب بھی نمازیں قصر یا جمع نہیں کریگا، ایسا شخص جو ہمیشہ سفر میں رہے یا سفر کرنے والوں کے حکم میں ہو، یا اسکی طبیعت ہی ایسی ہے کہ وہ سفر کرتا رہتا ہے، تو قرآن و سنت کی رو سے اسے نمازیں قصر اور جمع کرنے کی اجازت ہے، اس لئے سفر کرنا جس شخص کی عادت ہو کہ وہ اونٹوں پر سفر کرتا ہے یا ٹیکسی ڈرائیور ہےوہ دورانِ سفرقصر کر سکتا ہے، ایسے ہی راستے میں آنیوالے شہروں میں پڑاؤ اگر چار دن سے کم ہو تو تب بھی اسکے لئے قصر کی اجازت ہے"انتہی، "فتاوى نور على الدرب"

http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?View=Page&PageID=3375&PageNo=1&BookID=5

اسی بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نمازِ قصر کا تعلق سفر سے ہے، تو جب تک انسان سفر میں ہے اس وقت تک اس کیلئے نماز قصر کرنا مشروع ہے ، چاہے اسکا سفر وقتاً فوقتاً ہو یا ہمیشہ، بشرطیکہ اسکی مستقل رہائش بھی موجود ہو، اس لئے ٹرک ڈرائیور حضرات کیلئے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا درست ہے، اس لئے وہ نماز قصر کر سکتا ہے، تین دن اور راتوں تک موزوں پر مسح بھی کرسکتا ہے، رمضان المبارک میں روزے بھی چھوڑ سکتا ہے" انتہی، "مجموع الفتاوی"از ابن عثیمین(15/264)

اس بنا پر آپ سفر کی رخصتوں پر ان دو حالتوں میں عمل کر سکتے ہیں:

سوال میں مذکور دو ممالک کی طرف سفر کے دوران۔

جمہور علماء کے مطابق ان ممالک میں قیام اگر چار دن سے کم ہو ۔

مزید پڑھنے کیلئے سوال نمبر: (105844) کو دیکھیں۔

دوسری بات:

بندر گاہ پر نماز قصر کرنے کے بارے میں کچھ صورتیں ہیں:

1- بندر گاہ میں کام کرنے والا ملازم کسی اور شہر کا رہائشی ہو، تو اسکا حکم مسافر والا ہی ہے، چاہے بندرگاہ اسکے اپنے ملک میں ہو یا کسی اور ملک میں ، یہاں پر اسکی رہائش گاہ کا اعتبار ہوگا۔

2- ملازم اسی شہر کا رہائشی ہو جہاں بندر گاہ ہے، اور بندر گاہ شہری آبادی کے اندر ہو تو ایسا ملازم بندرگاہ پہنچتے ہی مقیم ہوجائے گا، اور اس سے سفر کا حکم ختم ہو جائے گا، اس لئے اس کیلئے سفر کی رخصتیں نہیں ہونگی، نمازیں قصر کریگا اور نہ ہی جمع ایسے ہی رمضان کے روزے بھی رکھے گا۔

اور اگر اپنا سفر شروع کرنے لگے تو بندر گاہ کے اندر رہتے ہوئے ان رخصتوں پر عمل نہیں کریگا، بلکہ جب اپنے شہر کی آبادی سے باہر چلا جائے تو پھر رخصتوں پر عمل کریگا۔

3- ملازم اسی شہر کا رہائشی ہے جہاں بندگاہ موجود ہے، لیکن بندگاہ شہری آبادی کی حدود سے باہر ہے، متصل نہیں ہے، تو ایسے شخص جب بندرگاہ پہنچے تو اس کا سفر ختم نہیں ہوگا، یہاں تک کہ وہ شہری آبادی کی حدود میں داخل ہوجائے۔

اور اگر سفر شروع کرنے لگے تو اپنے شہر کی آبادی سے نکل کر رخصتوں پر عمل شروع کردیگا، چاہے بندر گاہ پر ہو یا اس سے پہلےکسی جگہ پر۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: جب کوئی شخص قصیم میں موجود ہو اور وہ ائیر پورٹ کی جانب جائے تو کیا ائیر پورٹ پر نماز قصر کریگا؟انہوں نے جواب دیا: "ہاں ! قصر کریگا؛ اس لئے کہ اس نے علاقے کی آبادی کو چھوڑ دیا ہے ، ائیرپورٹ کے اردگرد تمام علاقے اس سے علیحدہ ہیں، اور جو ایئر پورٹ پر رہائش پذیر ہیں ، وہ ائیرپورٹ پر نمازیں قصر نہیں کرینگے، اس لئے کہ وہ اپنے رہائشی علاقے میں ہی موجود ہے" انتہی، "الشرح الممتع" (4/364)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب