الحمد للہ.
12 تاریخ کو جلدی کرتے ہوئے اصل اعتبار اس چیز کا ہے کہ حاجی منی سے 12 تاریخ کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے نکل جائے، چنانچہ اگر مذکورہ وقت سے پہلے پہلے حاجی منی سے باہر آ جائے تو اس کے بعد طواف وداع کو آئندہ روز تک مؤخر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
دوم:
دس تاریخ کو قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر کسی نے پہلے ہی ایسا کچھ کر لیا ہے اور اب اس کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو اس صورت میں جواز کی مزید گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ بخاری: (124) میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ کے پاس دیکھا آپ سے سوال پوچھے جا رہے تھے، ایک شخص نے کہا: “یا رسول اللہ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں ہے) ایک دوسرے شخص نے کہا: “یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال منڈوا لیے؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں ہے)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی کام کے مقدم یا مؤخر ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اب کر لو، کوئی حرج نہیں ہے)”
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی :
( وَلا تَحْلِقُوا رُؤُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ)
ترجمہ: اور اس وقت تک اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک ہدی [حج کی قربانی ] اپنے مقام تک نہ پہنچ جائے۔ [البقرہ: 196]
سے جو مسائل اخذ ہوتے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ قربانی کرنے تک سر کے بال منڈوانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: ” حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ” یعنی: جب تک قربانی اپنے مقام تک نہ پہنچ جائے، چنانچہ متعدد اہل علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : (میں نے اپنے سر کے بالوں کو جما لیا ہے، اور اپنی قربانی کو قلادہ ڈال دیا ہے، اب میں اس وقت تک احرام نہیں کھولوں گا جب تک قربانی نہ کر لوں) کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ قربانی سے پہلے سر کے بال منڈوانا جائز نہیں ہے۔
ان اہل علم کے پاس دلیل کے طور پر آیت کا ظاہری مفہوم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔
لیکن امت کیلئے آسانی کے طور پر کچھ احادیث میں قربانی سے پہلے یا بعد میں سر کے بال منڈوانے کی گنجائش ملتی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 10 ذو الحجہ کو کیے جانے والے اعمال کی ترتیب سے متعلق تقدیم و تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ہر سوال کے جواب میں یہی کہا کہ: (اب کر لو کوئی حرج نہیں ہے) “انتہی
ماخوذ از: تفسیر القرآن از شیخ ابن عثیمین
مزید کیلئے سوال نمبر: (106586) کا مطالعہ کریں۔
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپکا حج صحیح ہے، اور الحمد للہ، آپ کے ذمہ کوئی دم وغیرہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم.