الحمد للہ.
آنکھ کے اندرونی حصے میں وضو یا غسل کے دوران پانی پہچانا ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وضو میں ظاہری چہرہ دھونا ضروری ہے، [چہرے کا ]اندرونی حصہ دھونا ضروری نہیں ہے، اور میں اس بارے میں کسی مخالفت کرنے والے کو نہیں جانتا ؛ کسی شخص پر یہ بھی لازم نہیں ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو دھوئے، اور ان میں پانی کے چھینٹے مارے"انتہی
" الأم " (1/40)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہی ہے کہ آنکھوں کے اندرونی حصہ کو دھونا وضو ہو یا غسل کسی میں بھی مسنون نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، اور نہ ہی ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، اور ایسا کرنے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، اور اس بارے میں جو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا جاتا ہے وہ آنکھوں کے اندرونی حصہ کو دھونے کی کراہت کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس سے انکی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی؛ اور ایسا کام کرنا جس سے بینائی جانے کا اندیشہ ہو، یا نظر کمزور ہونے کا خطرہ ہو ، اور شریعت نے اس کا حکم بھی نہ دیا ہو تو وہ کام اگر حرام نہیں ہے تو کم از کم مکروہ ضرور ہے"انتہی
" المغنی " (1/77)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر انسان نے لینز پہن رکھے ہوں، تو ایسی صورت میں اسکی طہارت مکمل ہوجائے گی؟ چاہے طہارت وضو کی شکل میں ہو یا غسل کی شکل میں۔
تو انہوں نے جواب دیا:
پہلی بات: سب سے پہلے تو آپ لینز پہننے کے بارے میں سوال کریں، چنانچہ اگر لینز نظر کی کمزوری کیلئے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات میں سے ہے، جسکی وجہ سے بندوں کیلئے مشکل کام آسان ہوگئے، اور لینز عینک سے زیادہ باسہولت ہوتے ہیں، [انکو پہننا جائز اس ]شر ط پر ہے کہ انکی وجہ سے آنکھوں کو ،کبھی بھی نقصان نہ ہو۔
دوسری بات: ایسے لینز جو خوبصورتی کیلئے پہنے جاتے ہیں، تو ان کے بارے میں ہم مرد حضرات اور خصوصی طور پر نوجوان طبقہ کو پہننے کا مشورہ نہیں دینگے ، اِلّا کہ اسکی آنکھ کی سیاہی معیوب نظر آئے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ پھر یہ لینز عیب دور کرنے کیلئے ہونگے، خوبصورتی کیلئے نہیں ۔
خواتین ہی خوبصورتی کیلئے انکی ضرورت محسوس کرتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نےفرمایا: (اور کیا جس کی پرورش زیور میں کی جاتی ہے اور وہ جھگڑے میں بات واضح نہیں کرسکتی) الزخرف/ 18، یہاں اس سے مراد عورت ہی ہے، تو اس شرط پر خوبصورتی کیلئے پہن سکتی ہے کہ جانوروں کی آنکھوں سے مشابہ نہ ہو، مثال کے طور پر: بلیوں اور خرگوش وغیرہ کی آنکھیں؛ کیونکہ جانورں کی مثال قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں صرف مذمت بیان کرنے کیلئے ہی آئی ہے،جیسے کہ قرآن مجید میں ہے: (اس کی مثال تو کتے جیسے ہی، آپ اس پر وزن ڈالو یا نہ ڈالو [ہر صورت میں] اسکی زبان باہر [ہی رہتی ]ہے) الاعراف/ 176۔
اسی طرح فرمایا: (جن لوگوں کو تورات [پر عمل]کی ذمہ داری دی گئی اور پھر انہوں نے اس ذمہ داری کو نہ نبھایا، انکی مثال ایک گدھے جیسی ہے جو اپنے اوپر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے)، اوراسی بارے میں اپنا تحفہ دے کر واپس لینے والے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ([وہ شخص] اس کتے کی طرح ہے جو قیء کرنے کے بعد چاٹ لے)، اس لئے جانوروں کی آنکھوں سے ملنے والے لینز مت پہنے۔
اسی طرح کافر عورتوں کی آنکھوں سے مشابہت والے لینز بھی مت پہنے، لیکن یہ صورت گذشتہ سے کچھ ہلکے درجہ کی ہے؛ کیونکہ کافر خواتین نے اپنی آنکھیں خود ہی ایسی نہیں بنائیں۔
الغرض لینز کو پہنا جاسکتا ہے، یہ تو ہے لینز کے استعمال کے بارے میں ۔
جبکہ طہارت کے بارے میں یہ ہے کہ لینز کسی بھی طرح سے طہارت کیلئے اثرانداز نہیں ہوتے، نا تو غسلِ جنابت میں اور نہ ہی وضو میں، کیونکہ آنکھ کے اندرونی حصہ کو دھونا لازمی نہیں ہے، بلکہ اندرونی حصہ کو دھونا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جو کہ بدن کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے" انتہی
ماخوذ از: " لقاء الباب المفتوح "
چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق آپ کیلئے وضو یا غسل کے وقت لینز اتارنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ اعلم .