سوموار 17 جمادی اولی 1446 - 18 نومبر 2024
اردو

خشک اور تر چیزوں سے نجاست منتقل ہونے کے بارے میں ایک لڑکے کے سوالات

سوال

میں طہارت کے مسائل میں کافی پریشان ہوں کہ مرد کس طرح ہمیشہ پاک صاف رہ سکتا ہے؟ میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ نجاست ایسی چیزوں سے منتقل ہوتی ہے جس سے پانی رس رہا ہو، محض رطوبت والی اشیا سے منتقل نہیں ہوتی، تو پھر شہد یا کریم وغیرہ جیسی سائل چیزوں کے بارے میں کیا حکم ہو گا؟ کیا ان کے ذریعے بھی نجاست منتقل ہو جاتی ہے؟ اصل میں میری ذمہ داری ایک مریض کا خیال رکھنے کی ہے، مریض میں چلنے پھرنے کی سکت نہیں ہے اور ان کی خدمت کرنا میرا فرض بھی بنتا ہے، تو مریض کے پاخانہ کرنے کے بعد میں ان کے جسم کو صاف کرتا ہوں، تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ اور اگر نجاست گیلی جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے تو کیا یہ بات مرئی اور غیر مرئی ہر قسم کی نجاست کے متعلق ہے ؟ کیا ممکن ہے کہ پسینے کی وجہ سے گیلے ہاتھ میں نجاست منتقل ہو جائے؟ مثال کے طور پر اگر میرا پاؤں نجس پانی -مثلاً: گٹر کے پانی -میں چلا گیا اور پھر پاؤں نکال کر خشک ہونے تک کھلا چھوڑ دیا ، پھر اس پر میں نے جراب پہن لی، اب میرے پاؤں پر پسینہ آنے سے جرابیں بھی نجس ہو جائیں گی؟ مجھے ان تمام تفاصیل کے متعلق بہت پریشانی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہماری ویب سائٹ پر ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ رطوبت اور جس سے پانی ٹپکے ان دونوں کے نجس ہونے میں فرق ہے، بلکہ دونوں ہی یکساں طور پر نجس ہیں، تفریق کی صورت خشک اور تر ہونے میں ہے۔

تو خشک نجاست اپنی جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوتی، یعنی اگر خشک نجاست کسی خشک چیز کے ساتھ لگے تو خشک چیز نجس نہیں ہو گی، یہ چیز مشاہدے میں بھی ہے؛ کیونکہ خشک اور پاک چیز کے ساتھ اگر خشک نجاست لگے تو نجاست کی کوئی بھی علامت رنگت، بو اور ذائقہ پاک چیز میں ظاہر نہیں ہوتی۔

علامہ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاعدہ: قمولی ؒ اپنی کتاب الجواہر میں کہتے ہیں: نجس چیز جب کسی پاک چیز کے ساتھ لگے اور دونوں ہی خشک ہوں تو پاک چیز کو نجاست نجس نہیں کرے گی۔" ختم شد
"الأشباه والنظائر" (1/432)

الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر خشک نجاست ؛ خشک جسم اور کپڑے کو لگے تو اس سے کچھ نہیں ہو گا۔۔۔؛ کیونکہ نجاست اپنی رطوبت کے ساتھ متعدی ہوتی ہے۔" ختم شد
"فتاوى إسلامية"(1/194)

اور اگر نجاست میں رطوبت ہو تو عام طور پر اپنی جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے، چاہے جس چیز سے لگے وہ خشک ہو یا تر۔

دوم:
شہد اور کریم وغیرہ جیسی سیال چیزوں میں اگر نجاست شامل ہو گی تو وہ بھی نجس ہو جائیں گی، نیز اگر انہیں کسی جگہ استعمال کیا جائے گا تو وہ چیز بھی نجس ہو جائے گی، اور اگر جہاں نجاست گری ہے وہ تھوڑی سی جگہ ہے تو اس کے ارد گرد کی جگہ بھی نجس ہو گی کہ وہاں پر نجاست سرائت کر سکتی ہے۔

جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (چوہیا نکال کر پھینک دو، اور اس کے ارد گرد کا حصہ بھی پھینک دو، اور بقیہ گھی کھانے میں استعمال کر لو) بخاری: (5538)

تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ: " اور اس کے ارد گرد کا حصہ بھی پھینک دو " اس بات کی دلیل ہے کہ مردار کے آس پاس کا حصہ بھی نجس ہے؛ کیونکہ وہ حصہ مردار کی نجاست سے نجس ہو چکا ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف اس حصے کے متعلق ہے جو نجس چیز سے دور والا ہے۔

بہ ہر حال: یہاں ہمارا مقصود یہ ہے کہ سیال چیزیں بھی نجس چیزوں سے متاثر ہو جاتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے پانی متاثر ہوتا ہے۔ بلکہ پانی کے علاوہ چیزیں نجاست سے متاثر زیادہ ہوتی ہیں؛ کیونکہ پانی بذات خود نجاست کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے۔

سوم:
اس حوالے سے مرئی اور غیر مرئی نجاست میں کوئی فرق نہیں ہے، مثلاً: پیشاب کی نجاست، تو جب تک علم ہے کہ اس جگہ پر پیشاب لگا ہے، یا پیشاب کی کوئی علامت نظر آ رہی ہے، تو نجاست کی تین علامات رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی ایک بھی عیاں ہو جائے تو وہ چیز نجس قرار پائے گی؛ لیکن اگر فرض کریں کہ کپڑے پر پیشاب لگ گیا، لیکن کپڑے کا رنگ ایسا تھا کہ پیشاب کے اثرات اس پر عیاں نہیں ہوئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کپڑا نجس نہیں ہوا۔

تاہم اگر نجاست بالکل معمولی مقدار کی تھی کہ محض آنکھ سے دیکھنا ممکن نہ ہو، مثلاً پیشاب کے چھینٹے وغیرہ ، تو ان کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں کہ یہ قابل درگزر ہوں گے۔

جیسے کہ شیرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر نجاست ایسی ہے کہ اسے آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں تو اس بارے میں تین موقف ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ : اس کا کوئی حکم نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے بچاؤ ممکن ہی نہیں ہے، تو اس کا حکم روڑی کے گرد و غبار جیسا ہے، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ ایسی نجاست کا حکم بھی دیگر نجاستوں جیسا ہے؛ کیونکہ اس کے لگے ہونے پر یقین ہے، اس لیے اس کا حکم اسی نجاست جیسا ہو گا جو آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہے۔" ختم شد

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان تمام اقوال میں سے صحیح اور پسندیدہ موقف یہ ہے کہ: ایسی [نجاست کہ غیر مرئی ہو تو اس] صورت میں پانی اور کپڑا کچھ بھی نجس نہیں ہو گا۔ المقنع میں محاملی ؒ نے یہی موقف قطعی انداز سے اختیار کیا ہے اور اپنی دونوں کتابوں میں ابو طیب بن سلمہ سے نقل کیا ہے، نیز غزالی ؒ اور العدۃ کے مصنف ؒ سمیت دیگر اہل علم نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے؛ کیونکہ ایسی غیر مرئی نجاست سے بچنا بہت مشکل ہے اور اس میں تنگی بھی بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ترجمہ: اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔[الحج: 78] واللہ اعلم" ختم شد
"شرح المهذب" (1/178)

علامہ مرداویؒ قابلِ در گزر نجاستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"انہی میں وہ بھی شامل ہے جس کے بارے میں الرعایہ میں کہا گیا ہے کہ: معمولی نجس پانی کی بھی چھوٹ دی گئی ہے، جیسے کہ صحیح ترین موقف کے مطابق معمولی خون کی چھوٹ دی گئی ہے۔ ایسے ہی اتنی معمولی نجاست میں بھی چھوٹ ہے جو آنکھ سے نظر بھی نہ آئے۔۔۔ الشیخ تقی الدینؒ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ: تمام قسم کی نجاستوں کی معمولی مقدار میں مطلق طور پر چھوٹ ہے، حتی کہ کھانے کی چیزوں وغیرہ میں بھی لہذا چوہے کی مینگنی بھی اسی میں شامل ہے۔ الفروع کے مصنف کہتے ہیں کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ النظم کے مؤلف نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ: مجمع البحرین کے مؤلف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ: لباس اور کھانے کے معاملے میں معمولی نجاست کو بالاولی نظر انداز کرنا چاہیے؛ کیونکہ معمولی نجاست سے بچنا بہت مشقت والا کام ہے، اور تمام اہل عقل و خرد یہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی معمولی نجاست کا تعلق بلوی عامہ سے ہے، خاص طور پر آٹا پسائی، گنے کا رس نکالتے ہوئے، اسی طرح تیل نکالتے ہوئے چوہوں اور مکھیوں وغیرہ سے بچنا مشکل ترین کام ہے ، اسی طرح ان کے فضلے سے تحفظ بھی مشکل ہے۔ متعدد فقہائے کرام نے ان کے پاک ہونے کا موقف اختیار کیا ہے۔" ختم شد
"الإنصاف" (1/334)

جبکہ ایک موقف یہ بھی ہے کہ معمولی نجاست کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چاہے اسے آنکھ سے دیکھنا بھی ناممکن ہو۔
دیکھیں: "كشاف القناع" (1/190)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (169846 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

پنجم:
سنت یہ ہے کہ جب انسان کو کوئی نجس چیز لگ جائے تو فوری نجاست کو زائل کرے، اس کے خشک ہونے کا انتظار مت کرے؛ کیونکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے مسجد کے کونے میں جا کر پیشاب کر دیا، لوگوں نے اسے ڈانٹا ، لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو ڈانٹنے سے منع کر دیا، جب دیہاتی شخص نے پیشاب کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کا ایک بھرا ہوا ڈول منگوایا اور اسے پیشاب پر بہا دیا۔ صحیح بخاری: (221)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ ہے کہ: جب کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خرابیوں کو زائل کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو دیہاتی آدمی کے پیشاب سے فارغ ہونے پر پانی بہانے کا حکم دیا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از :فتح الباری

ششم:
نجس پاؤں پر جب پسینہ آئے گا تو جرابیں بھی لازمی طور پر نجس ہو جائیں گی؛ کیونکہ گیلی نجاست ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے، چاہے دوسری جگہ خشک ہی کیوں نہ ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب