الحمد للہ.
حسن درجے کی احادیث دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں: حسن لذاتہٖ اور حسن لغیرہٖ
حسن لذاتہٖ وہ حدیث ہوتی ہے: جسے پوری متصل سند کے ساتھ خفیف الضبط عادل راوی اپنے جیسے راوی سے حدیث بیان کرے اور اس میں کوئی شذوذ اور علت بھی نہ ہو۔
جبکہ حسن لغیرہٖ روایت وہ ضعیف روایت ہوتی ہے جس کی متعدد سندیں ہوں، لیکن ان میں سے کسی بھی سند کے ضعیف ہونے کی وجہ فاسق راوی ، یا کاذب راوی ، یا کمزور راوی نہ ہو۔
لہذا ضعیف روایت حسن لغیرہ تک دو طرح سے پہنچ سکتی ہے:
- ضعیف روایت دیگر ایک یا زیادہ ایسی اسانید سے منقول ہو جو کہ پہلے جیسی ہوں یا اس سے زیادہ قوی ہوں۔
- روایت کے کمزور ہونے کی وجہ معمولی ہو، مثلاً: راوی کا حافظہ معمولی کمزور ہو، یا سند میں انقطاع ہو یا سند میں کوئی راوی مجہول ہو۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ حسن لغیرہٖ حدیث در اصل ضعیف روایت ہوتی ہے جو کہ متعدد اسانید سے آنے کے باعث حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
حسن حدیث کی بھی دونوں قسمیں صحیح حدیث کی طرح قابل حجت ہیں، اگرچہ صحیح حدیث سے کم درجے کی ہیں، اسی لیے فقہائے کرام نے انہیں حجت مانا ہے، اور ان پر عمل کیا ہے، انہیں حجت قرار دینے کا عمل اکثر محدثین اور اصولی فقہائے کرام کا ہے۔
تفصیلات کے لیے دیکھیں: “تيسير مصطلح الحديث” از ڈاکٹر محمود طحان: (ص 24-27) .
مفصل گفتگو کے لیے آپ : “اليواقيت والدرر” (2 /168) ، “تحرير علوم الحديث” (3 /112) ، “فتح المغيث” (1 /68) ، اور “شرح نخبة الفكر” (ص 245) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم