اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حج کی قرعہ اندازی میں بیٹے کا نام آگیا ہے تو کیا باپ کو اپنی جگہ بھیج سکتا ہے؟ اور دونوں کا ابھی فریضہ حج رہتا ہے۔

سوال

سوال: میرا تعلق الجزائر سے ہے، میں شادی شدہ ہوں، میں نے ابھی تک فریضہ حج ادا نہیں کیا، اور اللہ کے فضل و کرم سے اس سال میرا نام بلدیہ کی حج قرعہ اندازی میں آگیا ہے، اس میں حجاج کیلئے بہت کم جگہ ہوتی ہے، خیر مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی، لیکن میرے والد صاحب میری جگہ حج پر جانا چاہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ میں خود حج کیلئے جاؤں یا والدین کیساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے والد صاحب کو اپنی جگہ حج پر بھیج دوں؟ ترجیح کس کو دی جائے رکن کی ادائیگی کو یا والدین کیساتھ حسن سلوک کو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حج کی استطاعت اور قوت رکھنے والے پر فوری حج ادا کرنا لازمی امر ہے،  ایسے شخص کو پہلی فرصت میں حج کرنا چاہیے، چنانچہ تاخیر درست نہیں ہے، یہی موقف جمہور علمائے کرام کا ہے۔

اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (41702) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

پہلے سوال نمبر: (132011) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ عبادت کے لیے کسی دوسرے کو اپنے آپ پر ترجیح دینے کی دو قسمیں ہیں:

1-فرض عبادت کیلئے کسی کو ترجیح دینا، یہ جائز نہیں ہے۔

2-مستحب عبادت کیلئے کسی کو ترجیح دینا، اس کے بارے میں بھی بہتر یہی ہے کہ ترجیح نہ دی جائے، لیکن اگر کوئی مصلحت ہو تو کسی دوسرے کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔

یہاں صورت حال یہ ہے کہ آپ نے اس سے پہلے فریضہ حج ادا نہیں کیا اور اس سال حج قرعہ اندازی میں آپ کا نام آگیا ہے تو آپ کیلئے اس سال اپنی طرف سے حج کرنا واجب ہے؛ کیونکہ حج آپ کے ذمہ فرض ہے اور یہ دین کا اہم رکن ہے، نیز صاحب استطاعت پر فرض ہے، قرعہ اندازی میں نام آنے کی وجہ سے آپ حج کی استطاعت رکھتے ہیں اس لئے آپ پر اللہ کا فریضہ ادا کرنا واجب ہے۔

چنانچہ اپنے والد صاحب کو قرعہ اندازی میں نام آنے کی وجہ سے ترجیح نہیں دے سکتے؛ کیونکہ پہلے گزر چکا ہے کہ واجب عبادات کیلئے کسی کو اپنے آپ پر ترجیح دینا جائز نہیں ہے۔

اس کیلئے آپ اپنے والد صاحب کو پیار محبت سے سمجھائیں، اور ان کیلئے اس مسئلے میں شرعی حکم واضح کریں۔

ویسے بھی جب والدین کیساتھ حسن سلوک اور فریضہ حج کی ادائیگی آمنے سامنے ہوں تو فریضہ حج کی ادائیگی کو ترجیح دی جائے گی، اور اسے والدین کی نافرمانی سے تعبیر بھی نہیں کیا جائے، کیونکہ والدین کیساتھ حسن سلوک کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔

لیکن پھر بھی اگر آپ اس اصول کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے والد کو حج کیلئے ترجیح دے دیتے ہیں تو ان کا حج درست ہے، اور آپ کیلئے یہ لازمی ہوگا کہ آپ استطاعت کے وقت حج جلد از جلد کریں۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“کیا انسان خود حج کرنے سے پہلے والدین کو حج کیلئے بھیج سکتا ہے؟”
تو کمیٹی کے علمائے کرام کا جواب تھا:
“حج کرنا ہر مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، اور استطاعت رکھنے والے پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، جبکہ کسی واجب کی ادائیگی کیلئے والدین کی اعانت بقدر استطاعت کرنا  شرعی طور پر درست ہے، لیکن آپ کے ذمہ یہی ہے کہ آپ اپنی طرف سے پہلے حج کریں، اور اگر سب بیک وقت حج پر نہیں جا سکتے تو آپ بعد میں حج کرنے کیلئے والدین کی مدد کر سکتے ہیں، تاہم اگر پھر بھی آپ اپنے والدین کو پہلے حج کرواتے ہیں تو ان کا حج درست ہوگا۔ اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (11/70-71)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب