سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اسلام لانے كے بعد پھر اسلام سے نكل گيا

20060

تاریخ اشاعت : 02-11-2008

مشاہدات : 6845

سوال

دين اسلام كے علاوہ كسى اور دين كو قبول كرنے والے مسلمان شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے؟
گزارش ہے كہ مجھے اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كى جائيں مجھے ان كى ضرورت ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام كے بعد ارتداد كفر ہے، اور اس كے علاوہ كوئى ايسى چيز نہيں جو سارے اعمال كو تباہ كر كے ركھ ديتى ہو، اگر مرتد ہونے والا شخص حالت ارتداد ميں ہى فوت ہو جائے تو اس كے سارے اعمال حبط اور تباہ ہو جائيں گے، اور اگر وہ اسلام كى طرف پلٹ آتا ہے تو اس كا اجروثواب اور عمل بھى پلٹ آئيں گے، اور اس نے ارتداد كى حالت ميں جو نماز اور روزہ ترك كيے ہيں ان كى قضاء نہيں كرے گا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور اسلام سے ارتداد اخيتار كرنا، اس طرح كہ كوئى شخص كافر يا مشرك يا كتابى ہو جائے، تو جب وہ شخص اسى ارتداد پر فوت ہو تو علماء كرام كا متفقہ فيصلہ ہے كہ اس كے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائيں گے، جيسا كہ قرآن مجيد بھى كئى ايك مقامات پر اسى طرح بيان كرتا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى تم ميں سے اپنے دين سے مرتد ہو كر مرے اور وہ كافر ہى ہو تو يہى لوگ ہيں جن كے اعمال دنيا و آخرت ميں تباہ اور ضائع ہو گئے .

اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:

اور جو ايمان كے ساتھ كفر كرے تو اس كے عمل حبط اور ضائع ہو گئے .

اور ايك جگہ پر ارشاد فرمايا:

اور اگر يہ بھى شرك كرتے تو ان كے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جاتے .

اور ايك مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:

اور اگر آپ بھى شرك كريں تو اللہ تعالى تيرے عمل ضائع اور حبط كر دے گا .

ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن تيميہ ( 4 / 257 - 258 ).

اور شريعت اسلاميہ ميں مرتد كا حكم يہ ہے كہ اگر وہ اسلام ميں واپس نہيں آتا تو اسے قتل كرنا واجب ہے.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى مسلمان شخص كا خون كرنا حلال نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں اللہ تعالى كا رسول ہوں ليكن اسے تين كاموں ميں سے ايك كى بنا پر قتل كرنا حلال ہے:

كسى كو قتل كرنے كے بدلے، اور شادى شدہ زانى، اور اپنے دين كو ترك كر كے جماعت سے جدا ہونے والا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6484 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1676 )

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اپنا دين بدل ديا اسے قتل كردو"

صحيح بخاى حديث نمبر ( 6922 ).

پھر جب اسے قتل كيا جائے گا تو وہ كافر مرے گا اس ليے نہ تو اسے غسل ديا جائےگا اور نہ ہى اسے كفن پہنايا جائے گا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا نہيں كى جائے گى، اور نہ اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائے گا، اور روز قيامت وہ ان جہنميوں ميں سے ہو گا جو ہميشہ آگ ميں رہيں گے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك مرتد كو زمين نے باہر پھينك ديا تھا تا كہ ديكھنے والوں كے ليے باعث عبرت ہو.

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك نصرانى نے اسلام قبول كيا اور سورۃ البقرۃ، اور آل عمران پڑھى، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كاتبوں ميں شامل تھا، تو پھر دوبارہ نصرانى ہو گيا، اور وہ يہ كہتا تھا: محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو صرف وہى كچھ جانتے تھے جو ميں نے اس كے ليے لكھا تھا، تو اللہ تعالى نے اسے فوت كرديا، اور اسے لوگوں نے دفن كيا تو جب صبح ہوئى تو زمين نے اسے باہر پھينكا ہوا تھا، وہ كہنے لگے:

يہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كا فعل ہے، كيونكہ جب وہ ان كے دين سے بھاگ گيا تو انہوں نے ہمارے ساتھى كى قبر اكھاڑ ڈالى، تو انہوں نے اس كے ليے اس سے بھى زيادہ قبر كھود كر دفن كر ديا، صبح ہوئى تو زمين نے اسے باہر پھينكا ہوا تھا، وہ كہنے لگے: يہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے ساتھيوں كا فعل ہے، جب وہ ان سے بھاگ گيا تو انہوں نے اس كى قبر اكھاڑ ڈالى، تو انہوں نے اس كى قبر كو اپنى استطاعت كے مطابق پہلے سے بھى زيادہ گہرا كھود كر اسے دفن كرديا، صبح ہوئى تو زمين نے اسے باہر پھينكا ہوا تھا، تو انہيں معلوم ہو گيا كہ يہ لوگوں كا كام نہيں، تو انہوں نے اسے ويسے ہى پھينك ديا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3421 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2781 )

اور مسلم كى روايت كے آخر ميں ہے: " تو انہوں نے اسے پھينكا ہوا رہنے ديا"

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب