الحمد للہ.
اول:
کسی بھی استاد کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ طالب علم کو اس کے حق سے زیادہ نمبر دے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ باقی طالب علموں کے حق میں ظلم اور ان کے ساتھ خیانت ہے ،مزید فائدہ کیلئے سوال نمبر 130096 کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
دوم:
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ استاد نے جان بوجھ کر طالب علم کو اس کے حق سے زیادہ نمبر دئیے ہیں تو اس کا گناہ اس (استاد)پر ہے نہ کہ طالب علم پر کیونکہ اس نے امتحان میں کوئی خیانت نہیں کی ،لہذا اسے حرام کام کا مرتکب کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح کا ایک سوال شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھی کیا گیا تھا کہ ایک طالب علم کمرہ امتحان میں پرچہ حل کر رہا ہے اس کا کسی قسم کی خیانت کا ارادہ نہیں ہے لیکن اس نے ایک شخص کو سنا جو اپنے ساتھی کو سوال کا جواب بتلا رہا تھا اور جواب بھی بالکل درست تھا کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس جواب کو اپنی جوابی شیٹ پر لکھے؟
تو شیخ محترم کا جواب یہ تھا کہ :
"بے شک اس کو اللہ نے معلوم کروایا ہے یہ اللہ کی عطا ہے جو اسے بغیر مشقت کے حاصل ہو گئی ، اس جواب کے لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگر بالفرض وہ اس سوال کے جواب کو نہیں بھی جانتا تھا پھر بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس نے نہ خیانت کی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوشش کی ہے " انتہی
اللقاءالشھری لابن عثیمین (5/61)
اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تمہارا اندازہ جو آپ نے امتحان کے لگایا ہے وہ درست ہی ہو ، ممتحن کی نظر میں کوئی اور امتیازی خوبی بھی ہو سکتی ہے جو تمہارے نمبروں میں اضافے کا سبب ہو، بہرحال اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے طالب علم اور ممتحن دونوں میں سے کسی کو بھی غلط یا گناہگار نہیں کہا جاسکتا خاص طور پر جب دونوں ہی ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں ۔
جب یہ فرض کر لیا گیا کہ ممتحن سے باوجود امانت دار اور اس کی اہلیت ہونے کے تصحیح میں غلطی ہو گئی ہے ،اس نے امانت ادا کرنے کی کوشش کی لیکن درجات کی کمی بیشی سر زد ہو گئی تو اس پر ان شاء اللہ کوئی گناہ نہیں بلکہ کوشش کی وجہ سے اس کو اجر و ثواب ملنے کی توقع ہے ۔
اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے اس کالج میں داخلے پر کوئی حرج والی بات نہیں ہے اور نہ ہی آپ گناہگار ہیں، ان شاء للہ ،امید ہے کہ ممتحن پر بھی کوئی حرج والی بات نہیں ہے ۔
ہم اللہ سے آپ کیلئے مدد اور آسانی کی دعا کرتے ہیں۔
واللہ اعلم.