جمعہ 8 ربیع الثانی 1446 - 11 اکتوبر 2024
اردو

عورت كے ليے اپنے چہرے كے بال اتارنے كا حكم

سوال

مجھے علم ہے كہ عورت اپنے ابرو كا كوئى بال نہيں اتار سكتى ليكن چہرے كے باقى بالوں كا حكم كيا ہے ؟
كيا عورت اپنے اوپر والے ہونٹ يا چہرے كے كسى بھى حصہ سے بال اتار سكتى ہے، اور خاص كر جب عورت كے بال بہت زيادہ ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

ابرو كے بال اتارنا جائز نہيں، كيونكہ يہ نمص ميں شامل ہوتا ہے جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے، اور يہ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے جو شيطانى عمل ہے، اور اگر اسے خاوند بھى ايسا كرنے كا حكم دے تو وہ اس كى اطاعت مت كرے؛ كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، اور اللہ خالق كائنات كى معصيت و نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں ہو سكتى، بلكہ اطاعت تو نيكى ميں ہوگى، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم بھى ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 133 ).

دوم:

ابرو كے ليے علاوہ باقى جسم كے سارے بال اتارنے جائز ہيں مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" عورت كا اپنے جسم كے بال اتارنے كى دليل اصل پر عمل ہے، اور عورت سے مطلوب ہے كہ وہ اپنے خاوند كے ليے بناؤ سنگھار كرے اور اس سے منع كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى، صرف وہى كہ جو عورت كو نمص يعنى ابرو كے بال اكھيڑنے سے منع كيا گيا " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 130 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:

" دونوں ابرؤوں كے درميان والے بال اكھيڑنے كا اسلام ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اسے اكھيڑنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہوتے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 197 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب