جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ہم اکثر پریشان رہتے ہیں!!

سوال

ہمارا ایک مسئلہ ہے، میں اور میرا خاوند ہم دونوں اس میں مبتلا ہیں ، وہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں سوچتے بہت زیادہ ہیں، اور ہر چیز کا بھوت اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری عبادات پر منفی اثرات آتے ہیں اور ہمیں کبھی بھی کوئی مسئلہ در پیش ہو جائے تو اس کے بارے سوچتے رہتے ہیں، تو کیا اس کا کوئی حل ہے؟؟!!

جواب کا متن

الحمد للہ.

محترمہ بہن! ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہم پر اعتماد کیا، میں اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے دعا گو ہوں کہ ہمیں کامیابیاں عطا فرمائے، ہمیں سیدھا راستہ دکھائے اور بھلائی کے کاموں پر گامزن رکھے، ہمیں اور آپ کو حق بات؛ حق سمجھنے کی توفیق دے کر اس کی تعمیل عطا فرمائے، اور پھر باطل کو باطل سمجھ کر اس سے بچنے کی قوت عطا فرمائے، ایسا نہ ہو کہ باطل امور ہمارے لیے پیچیدہ ہو جائیں اور ہم گمراہی کی طرف جا نکلیں۔ آپ نے مشورہ طلب کیا تو اس کے بارے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ:

اول:

اپنی زندگی کے مختلف گوشوں ، نجی اور عمومی معاملات پر غور و فکر بہت ضروری اور اہم ہے، تبھی ہم کما حقہ اس سے مستفید ہو سکیں گے اور عقل کا صحیح استعمال کر پائیں گے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے عقل کو استعمال کرنے کی بہت سی آیات میں ترغیب دلائی چنانچہ فرمایا:
وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور پکار اٹھتے ہیں) پروردگار! تو نے یہ فضول میں پیدا نہیں فرمایا۔ [آل عمران: 191]

پھر کئی آیات مبارکہ میں یوں دعوت غور و فکر دی کہ:
وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
ترجمہ: اور تمہاری جانوں میں (بھی نشانیاں ہیں)کیا پھر بھی تم بصیرت سے کام نہیں لیتے۔ [الذاريات: 21]

اور کہیں فرمایا: أَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ یعنی تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟

اور کہیں فرمایا: أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی تم عقل کو استعمال میں کیوں نہیں لاتے؟

اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں جو ہمیں اپنے معاملات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ صرف اپنے بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد اور آس پاس موجود مخلوقات میں بھی دعوتِ غور و فکر دیتی ہیں۔

لہذا اس سے یہ واضح ہوا کہ محض غور و فکر کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ غور و فکر تو ضروری اور بڑا اہم عمل ہے، ہمیں ہمارا دین غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور قرآن کریم اس کی بھر پور ترغیب دلاتا ہے۔

دوم:

ایسا ممکن ہے کہ غور و فکر نفسیاتی یا سماجی بحران بن جائے لیکن ایسا کب ہوتا ہے جب حد سے زیادہ سوچا جائے، اور انسان کے اپنے معمولات زندگی بہت زیادہ سوچنے کی وجہ سے دھرم برہم ہو جائیں!!

مثلاً: ہم اپنے معاملات کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے لگ جائیں، اپنے آپ کو کسی ایسے معاملے کے بارے میں مشغول رکھیں جس کے بارے میں سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا!! بلکہ اس کے متعلق سوچتے ہوئے خوامخواہ کی پریشانی لاحق ہو گی، انسان آگے نہ بڑھ سکے گا، نہ ہی کوئی نئی سوچ ، فکر یا حل پیش کر سکے گا، دل میں صرف تردد، اور عدم اطمینان جا گزین ہو گا، جس کے نتیجے میں انسان کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پائے گا!!!

پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حد سے زیادہ سوچنا انسان کے لیے شرعی مسائل کھڑے کر دے؛ کیونکہ جب انسان اپنی عقل کے دائرے سے باہر غیبی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دے تو یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ غیبی چیزوں کا احاطہ اور ادراک انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔۔۔ بلکہ اس سے تو شیطان مردود کے لیے اثر انداز ہونے کے بہت سے راستے کھل جاتے ہیں۔

سوم:

آپ دونوں ہر چیز کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں، اور ہر مسئلے کو اپنے دماغ پر سوار کر لیتے ہیں تو یہ ایک حد تک معمول کی بات ہے، لیکن وہ بھی اس حد تک کہ غور و فکر آپ کی معمول کی زندگی میں رکاوٹ نہ بنے، میرا مطلب یہ ہے کہ کیا غور و فکر کرنے سے آپ کی زندگی میں کھڑے ہونے والے مسائل کا حل آپ نکال لیتے ہیں؟! اور کیا زندگی کے مختلف مواقع پر پیش آمدہ مسائل اس قابل ہوتے ہیں کہ آپ اس کے بارے میں اس قدر سوچیں؟! اگر تو ان دونوں سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو پھر یہاں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔! اور اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر آپ نے اپنے مسئلے کے حل کے لیے آدھا سفر مکمل کر لیا ہے؛ کیونکہ مسئلے کی حقیقت تک پہنچنا نصف علاج ہوتا ہے، ویسے بھی جب ہمیں کسی مسئلے کی حقیقت معلوم ہو جائے تو پھر اس کا علاج کرنا ہمارے لیے آسان ہو جاتا ہے۔

چہارم:

اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ محنت اور وقت درکار ہو گا، ان دونوں چیزوں کو شروع کرنے کا اختیار بھی آپ کے ہاتھ میں ہے، پھر اللہ تعالی کی توفیق سے آپ میں یہ صلاحیت موجود بھی ہے، یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ آپ دونوں اپنے بارے میں مکمل پر اعتماد رہیں کہ آپ میں یہ صلاحیتیں موجود ہیں۔

پنجم:

میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنی مصروفیات اور مسائل کو تین درجات میں تقسیم کریں:

پہلا درجہ: ایسی مصروفیات اور مسائل جن کا براہ راست تعلق آپ کی ازدواجی اور سماجی زندگی سے اتنا زیادہ ہے کہ بندھن کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے تو یہاں ضروری ہے کہ آپ ان کے بارے میں مل بیٹھ کر سوچیں اور اس کے لیے وقت نکالیں، اس خرابی کو جڑ سے ختم کریں اور باہمی مفاہمت سے اسے حل کریں، اسے نارمل مت لیں کہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں طغیانی آ جائے اور پھر اس کو حل کرنا مشکل ہو جائے۔

دوسرا درجہ: ایسے مسائل جن میں مثبت اور منفی پہلو یکساں ہیں، آپ لازمی طور پر کسی ایک جانب ضرور ہوں گے تو ایسی صورت میں آپ اللہ تعالی سے استخارہ کریں، اور اس کے بارے میں مشورہ بھی کریں، پھر اس کے متبادل ذرائع سے بھی موازنہ کریں، نیز اس کے متعلقہ شرعی اور عرفی امور کو بھی مد نظر رکھیں، تاہم ایک حد تک سوچیں، اس میں مبالغہ مت کریں۔

تیسرا درجہ: ایسے مسائل اور مصروفیات جو کسی بھی صورت میں آپ سے متعلقہ نہیں ہیں ؛ کیونکہ ان کا تعلق ہی دوسروں سے ہے، تو ایسے امور کو زیر بحث لانا ہی نہیں چاہیے کہ دوسروں کے معاملات میں ہم ٹانگیں اڑائیں اور اپنا وقت ضائع کریں؛ کیونکہ سادہ سی بات ہے کہ یہ معاملات آپ سے متعلقہ ہیں ہی نہیں!! آپ کے سوچنے سے ان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ششم:

زندگی کے مسائل اور معاملات تین قسم کے ہوتے ہیں:

  • ایسے معاملات جو ماضی میں گزر چکے ہیں۔۔۔ ان کے بارے میں زیادہ غور و خوض نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ ہاں اتنا ہو کہ ماضی کی غلطیوں اور تجربوں سے مستقبل کے لیے رہنمائی لیں؛ اس لیے کہ ماضی دوبارہ نہیں آئے گا، چنانچہ گزرے ہوئے وقت کے بارے میں زیادہ سوچ بچار کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • مستقبل کے معاملات ۔۔۔ ان کے بارے میں تو بالکل اپنے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ ابھی اس کا وقت ہی نہیں آیا؛ کیونکہ مستقبل تو غیبی چیز ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ مستقبل کے لیے متعدد آپشن رکھیں، اور جب وقت آئے تو اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے کسی ایک آپشن کو ہم استعمال کر لیں۔
  • موجودہ معاملات اور حالیہ چیزیں ۔۔۔ یہی وہ مسائل اور معاملات ہیں جن میں جس حد تک ہو سکے میسر متبادل امور میں موازنہ کریں، ان کے بارے میں کسی سے مشورہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بغیر کسی پریشانی کے اور قلق دل پر لیے دوسروں کی آرا بھی لیں ، ان شاء اللہ آخر کار معاملات ایسے ہی چلیں گے جیسے ہم اللہ تعالی سے امید لگائیں گے؛ کیونکہ اگر ہم کوئی بھی فیصلہ اور حتمی بات استخارے اور مشورے کے بعد کرتے ہیں تو ہمارے بارے میں اللہ تعالی کے اختیار کردہ حکم میں خیر ہو گی، ان شاء اللہ

ہفتم:

اپنے آپ کو اس طریقے کا عادی بنانے کے لیے تھوڑی محنت اور دقت چاہیے، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اور آپ کے خاوند باہمی طور پر فیصلہ کر لیں کہ دونوں ان معاملات میں ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں گے، اگر کسی ایک سے کہیں کوئی کوتاہی ہو تو دوسرا اسے یاد دہانی کروائے گا، اور کسی بھی موضوع پر حد سے زیادہ بات چیت اور غور و فکر نہیں ہو گا، تو اس سے یہ ہو گا کہ کچھ ہی عرصے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ اپنے معاملات میں حقائق کی دنیا میں رہتے ہوئے عملی فیصلے کرنے لگے ہیں۔

ہشتم:

قلق اور پریشانی کے حوالے سے ایک بہت ہی اچھی کتاب: "پریشان ہونا چھوڑیے جینا شروع کیجیے" ہے اور اس میں عملی پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے، یہ کتاب ڈیل کارنیجی کی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔

نہم:

 اور اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ تعالی سے دعائیں کریں، اپنی نیت خالص کریں اور سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے مانگیں کہ اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے، اور آپ کے قدموں کو راہ راست پر رکھے۔

واللہ اعلم

ماخذ: احمد المقبل، Islam today