الحمد للہ.
آئمہ اربعہ اورجمہور صحابہ کرام اورتابعین کا مسلک ہے کہ سفر میں روزہ جائزاورصحیح ہے اوراگر مسافر روزہ رکھ لے تو وہ ادا ہوجائے گا ۔
دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 73 ) ۔
لیکن افضلیت میں تفصیل ہے :
پہلی حالت :
جب سفرمیں روزہ رکھنا اورچھوڑنا برابر ہو ، یعنی مسافر پر روزہ اثر انداز نہ ہو تواس حالت میں مندرجہ ذيل دلائل کے اعتبار سے روزہ رکھنا افضل ہوگا :
ا – ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم رمضان کے مہینہ میں سخت گرمی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفر پر نکلے اورگرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سر پر رکھتے تھے ، اورہم میں نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کسی اورشخص کا روزہ نہیں تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 18945 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1122 ) ۔
ب - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہونے میں جلدی کرتے تھے ، کیونکہ قضاء میں تاخیر ہوتی ہے ، اوررمضان کے روزوں کی ادائيگی کو مقدم کرنا چاہیے ۔
ج - مکلف کے لیے اغلب طور پر یہ زيادہ آسان ہے ، اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا اورافطار کرنا دوبارہ نئے سرے سے روزے شروع کرنے سے زيادہ آسان ہے ۔
د - اس سے فضیلت کا وقت پایا جاسکتا ہے ، کیونکہ رمضان باقی مہینوں سے افضل ہے اورپھریہ وجوب کا محل بھی ہے ۔
ان دلائل کی وجہ سے امام شافعی کاقول راجح ہوتا ہے کہ جس مسافر کے لیے روزہ رکھنا اورافطار کرنا برابر ہوں اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے ۔
دوسری حالت :
روزہ چھوڑنے میں آسانی ہو ، تویہاں ہم یہ کہيں گے کہ اس کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے ، اورجب اسے سفرمیں روزہ رکھنا کچھ مشقت دے تواس کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ رخصت کےہوتے ہوئے مشقت کا ارتکاب کرنا صحیح نہيں اوریہ اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار ہے ۔
تیسری حالت :
اسے روزہ کی بنا پرشدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے جسے برداشت کرنا مشکل ہو توایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہوگا ۔
اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں پائی جاتی ہے :
امام مسلم نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اورروزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اوراوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزے کی وجہ سے مشقت ہو رہی ہے اوروہ اس انتظار میں ہيں کہ آپ کیا کرتے ہيں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1114 ) ۔
لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا ۔
دیکھیں الشرح الممتع للشیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ ( 6 / 355 ) ۔
امام نووی اورکمال بن ھمام رحمہم اللہ تعالی کہتے ہیں :
سفرمیں روزہ نہ رکھنے کی افضلیت والی احادیث ضرر پر محمول ہیں کہ جسے روزہ رکھنے سے ضررپہنچے اس کے حق میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے ، اوربعض احادیث میں تو اس کی صراحت بھی موجود ہے ۔
احادیث میں جمع اور تطبیق دینے کے لیے یہ تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی ایک حدیث کے اھمال یا بغیرکسی قطعی دلیل کے منسوخ کے دعوی سے یہ زيادہ بہتر ہے ۔
اورجن لوگوں نے سفرمیں روزہ رکھنا اورنہ رکھنا دونوں کو برابر قرار دیا ہے وہ مندرجہ ذيل حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے استدلال کرتے ہيں :
وہ بیان کرتی ہيں کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفرمیں روزہ رکھ لوں ( کیونکہ وہ بہت زيادہ روزے رکھا کرتے تھے ) ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں جواب میں ارشاد فرمایا :
اگرچاہو تو روزہ رکھ لو ، اوراگر چاہوتو نہ رکھو ۔ متفق علیہ ۔ .