الحمد للہ.
اول:
جس حديث كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے اس كے متعل ہم نہيں جانتے، ليكن جو ثابت ہے وہ يہ كہ جس شخص نے بھى دنيا ميں كوئى چيز چورى كى، يا كسى كا زبردستى حق چھينا، يا ميدان جنگ سے تقسيم غنيمت سے قبل مال غنيمت ميں خيانت كى وہ روز قيامت اپنى پيٹھ پر اٹھا كر لائيگا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے درميان كھڑے ہوئے اور مال غنيمت ميں خيانت كا ذكر كيا اور اس معاملہ كو بہت عظيم قرار ديتے ہوئے فرمايا:
" ميں تم ميں سے كسى شخص كو بھى روز قيامت ايسے نہ پاؤں كہ اس كى گردن پر بكرى سوار ہو اور وہ ممياہ رہى ہو، اس كى گردن پر گھوڑا سوار ہو اور وہ ہنہنا رہا ہو.
اور وہ شخص مجھے كہے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى مدد كرو تو ميں كہوں:
ميں تيرے ليے كسى چيز كا مالك نہيں، ميں نے تجھے پہنچا ديا تھا "
اور اس شخص كى گردن پر اونٹ سوار ہو گا جو آواز نكال رہا ہو گا، تو وہ شخص مجھے كہے گا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى مدد فرمائيں تو ميں كہونگا:
ميرے پاس تيرے ليے كچھ نہيں ہے، ميں نے تو حكم پہنچا ديا تھا.
اور اس كى گردن پر خاموش سونا اور چاندى ہو، تو وہ كہے اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ ميرى مدد كريں، تو ميں اسے كہونگا:
ميں تيرے ليے كسى چيز كا مالك نہيں، ميں نے تو پہنچا ديا تھا، اور اس كى گردن پر كپڑے حركت كر رہے ہوں، تو وہ شخص كہے ميرى مدد كرو، تو ميں كہوں: ميں تيرے ليے كچھ نہيں كر سكتا، ميں نے تو حكم پہنچا ديا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2908 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1831 ).
ثغاء: بكرى كے مميانے كى آواز كو كہتے ہيں:
حمحمۃ: گھوڑے كے ہنہنانے كى آواز كو كہتے ہيں.
رغاء: اونٹ كى آواز.
صامت: سونا اور چاندى ہے.
رقاع تخفق: كپڑے حركت كر رہے ہونگے.
دوم:
رہا يہ مسئلہ كہ: مسلمان شخص كا اپنى اور اپنے اہل و عيال كى ضرورت سے زيادہ مكان بنانا تو اس كے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء اس پر متفق ہيں كہ آدمى كا اپنے اور اپنے اہل و عيال كے سر چھپانے، اور سردى و گرمى اور بارش اور لوگوں كى نظروں سے بچنے كے ليے مكان بنانا فرض ہے، يا جو ہم نے بيان كيا ہے اس كے چھپانے كے ليے مكان حاصل كرنا فرض ہے...
اور اس پر متفق ہيں كہ جب آدمى اللہ تعالى كے سارے حقوق ادا كر دے تو پھر اس كا كمائى اور عمارت ميں وسعت اختيار كرنا مباح ہے، پھر ان كا اس ميں اختلاف ہے كہ كون مجبور ہے، اور كون مجبور نہيں " اھـ
ديكھيں: مراتب الاجماع ( 155 ).
مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ دنياوى امور ميں عدم وسعت اختيار كرے، اور جتنى ضرورت ہو اسى پر اقتصار كرے، اس كى دليل اسراف اور فضول خرچى سے ممانعت كے عمومى دلائل ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور كھاؤ پيئو اور اسراف و فضول خرچى مت كرو، يقينا اللہ تعالى فضول خرچى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).
اور اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
اور وہ لوگ جب خرچ كرتے ہيں نہ تو اسراف كرتے ہيں اور نہ ہى بخل سے كام ليتے ہيں، بلكہ وہ ان دونوں كے درميان معتدل طريقہ پر خرچ كرتے ہيں الفرقان ( 67 ).
امام ترمذى رحمہ اللہ نے خباب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بندے كو مٹى كے علاوہ ہر چيز ميں خرچ كرنے پر اللہ تعالى اجروثواب سے نوازتے ہيں، يا فرمايا: عمارت كے علاوہ "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 4283 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام بخارى رحمہ اللہ نے خباب رضى اللہ تعالى كا قول نقل كيا ہے.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 5672 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ضرورت سے زيادہ پر محمول كيا جائيگا " اھـ
اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حالت سے بھى استلال كيا جائيگا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دنيا ميں مشغول ہونے سے پرہيز كرتے تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو بھى دنياوى مال زيادہ ہونے سے بچنے كا كہتےہوئے فرمايا:
" اللہ كى قسم مجھے تمہارے فقيراور تنگ دست ہونے كا ڈر نہيں، ليكن مجھے ڈر ہے كہ تم پر دنيا كھول دى جائيگى جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر دنيا كے مال كى فراوانى كى گئى تو تم بھى اسى طرح دنيا ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش كرنے لگو گے جس طرح انہوں نے ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش كى، تو جس طرح دنيا نے انہيں ہلاك كر ديا تمہيں بھى ہلاك كر دےگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3158 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2961 ).
سوم:
مسلمان شخص جو گھر اپنے اور اپنے اہل وعيال كے ليے تيار كرتا ہے اس ميں كوئى زكاۃ نہيں، چاہے اس كى كتنى بھى قيمت بڑھ جائے، اور جو گھر اور عمارت وہ كرايہ پر دينے كے ليے تعمير كرتا ہے ان ميں فى ذاتہ زكاۃ نہيں، بلكہ اس كا كرايہ جب نصاب كو پہنچ جائے اور اس پر سال پورا ہو جائے تو كرائے پر زكاۃ ہو گى.
اور جو گھر فروخت كرنے كے ليے تعمير كيے جاتے ہيں ان ميں زكاۃ ہوگى، كيونكہ وہ تجارتى سامان ميں شامل ہوتے ہيں، اس ليے سال پورا ہونے پر اس كى قيمت لگا كر اس كى زكاۃ نكالى جائيگى، اور زكاۃ كى مقدار اس كى اجمالى قيمت سے بيسواں حصہ ہے، اسم سئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10823 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .