سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

زیرِ ناف اور بغلوں کے بال زائل کرنے کی حکمت

سوال

زیرِ ناف اور بغلوں کے بال مونڈنے کی کیا وجہ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں لوگ کس طرح بال مونڈتے تھے؟ کیا زیر ناف اور بغلوں کے بال کترنا کافی ہو گا یا مونڈنا لازمی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حدیث مبارکہ میں واضح ہے کہ زیر ناف اور بغلوں کے بال زائل کرنا شرعی عمل ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پانچ چیزیں فطرت میں شامل ہیں: ختنہ کرنا، [زیر ناف بال زائل کرنے کے لیے] استرا استعمال کرنا، ناخن کاٹنا، بغلوں کے بال نوچنا اور مونچھیں کٹوانا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5889) اور مسلم : (257) نے روایت کیا ہے۔

انسانی جسم سے ان دونوں جگہوں کو بالوں سے صاف کرنے کی حکمت -اللہ اعلم-یہ ہو سکتی ہے کہ ان جگہوں کو بالوں سے صاف رکھنے پر صفائی ستھرائی اچھی طرح ہو گی، نیز اگر بال زیادہ ہو جائیں تو بد بو بھی آنے لگتی ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے فوائد اور گراں مایہ حکمتیں ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" [حدیث مبارکہ میں مذکور] ان فطری امور کے دینی اور دنیاوی کافی فوائد ہیں، انہیں تلاش کرنے سے معلوم کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اس سے انسان کا منظر اچھا ہو جاتا ہے، ان کا اہتمام کرنے سے پورا جسم صاف ستھرا رہتا ہے، دونوں قسم کی طہارت بھی اچھے سے ہوتی ہے، قریب بیٹھنے والے کو بد بو وغیرہ بھی نہیں آتی، ان فطری چیزوں کا اہتمام کرنے سے مجوسی، یہودی، نصاری اور بت پرستوں کی مخالفت بھی ہوتی ہے، اور شریعت پر عمل بھی ہوتا ہے، اللہ تعالی کی بیان کردہ خوب صورت شکل کی حفاظت بھی ہوتی ہے جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:  وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَركُمْ یعنی اللہ تعالی نے تمہاری شکلیں بنائیں تو بہت اچھی بنائیں ہیں۔
تو چونکہ ان فطری امور کا خیال رکھنے کا اللہ تعالی کی عطا کردہ شکل و صورت سے تعلق ہے تو گویا اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ: تمہاری شکلیں اللہ تعالی نے خوبصورت بنائی ہیں اس لیے نہیں مت بگاڑو ۔ یا یوں کہا گیا ہے کہ: ایسے اقدامات تسلسل سے کرو جن سے تمہارا حسن برقرار رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان فطری چیزوں کا خیال ؛ مروت بھی ہے اور باہمی تعلق بڑھنے کا ذریعہ بھی ہے؛ کیونکہ جب انسان خوبصورت شکل میں سامنے آئے تو اس سے کھل کر بات کرنا قدرے زیادہ آسان ہوتا ہے، اور اس کی بات تسلیم بھی کی جاتی ہے، اس کی رائے کی قدر ہوتی ہے، جبکہ انسانی مظہر اچھا نہ ہو تو رد عمل بالکل برعکس ہوتا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: فتح الباری

دوم:
عہد نبوت میں بال مونڈنے کے لیے زیادہ تر استرا استعمال کیا جاتا تھا۔

جیسے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ایک غزوے میں تھے، جب ہم مدینہ کے قریب آ گئے اور مدینے میں داخل ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ٹھہرو! ہم رات یعنی عشا کے وقت داخل ہوں گے، تا کہ پراگندہ بالوں والی اپنے بال سنوار لے، اور جس کا خاوند غائب ہو وہ استرا استعمال کر لے)"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری" میں کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ جس کا خاوند جہاد پر گیا ہوا تھا وہ اپنے جسم کے غیر ضروری بالوں کو صاف کر لے، بالوں کو صاف کرنے کے لیے استرا استعمال کرنے کا تذکرہ کیا ؛ کیونکہ عام طور پر اس وقت استرا ہی استعمال کرتے تھے، اس حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ استرے کے علاوہ کسی اور چیز سے بال صاف نہیں کیے جا سکتے۔" ختم شد

اسی طرح صحیح بخاری: (3989) میں خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں ہے کہ: "جب لوگوں نے خبیب کو قتل کرنے کا عزم کر لیا تو خبیب نے حارث کی بیٹیوں میں سے کسی سے [اپنی جسمانی صفائی کے لیے]استرا مانگا تو اس نے خبیب کو استرا دے دیا۔۔۔" الحدیث

اسی طرح مسند احمد: (26705) میں معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ : "جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منی میں اپنی حج کی قربانی نحر کر لی تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ میں آپ کے بال مونڈ دوں، تو میں آپ کے سر کے پاس کھڑا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا: (معمر! خیال کرنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجھے اپنے کان کی لو پکڑنے کا موقع دیا ہے، اور تمہارے ہاتھ میں استرا بھی ہے۔۔۔)" الحدیث

سوم:
زیر ناف بال مونڈنا سنت ہے، جبکہ بغلوں کے بالوں کے متعلق سنت یہ ہے کہ انہیں نوچا جائے، تاہم اگر کوئی شخص انہیں کتر لیتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بہتر نہیں ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/65)میں کہتے ہیں:
"استرا استعمال کرنا: یعنی زیر ناف بال مونڈنا ؛مستحب عمل ہے۔ کیونکہ یہ بھی فطری امور میں شامل ہے، اگر بال نہ مونڈے جائیں تو بد بو پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے بالوں کو زائل کرنا مستحب قرار پایا۔ بال صاف کرنے کے لیے کوئی بھی ذریعہ اپنایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اصل مقصود بال صاف کرنا ہے۔ چنانچہ ابو عبد اللہ [یعنی: امام احمد رحمہ اللہ ] سے عرض کیا گیا: ایک شخص زیر ناف بال قینچی سے کاٹتا ہے، مکمل مونڈتا نہیں ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد

اسی طرح علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"استرے کا استعمال زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے ہوتا ہے، اور یہ سنت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ زیرِ ناف جگہ صاف ہو، ان بالوں کو صاف کرنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ انہیں مونڈ دیا جائے، تاہم قینچی سے کترنا، یا انہیں نوچنا، یا بال صفا پاؤڈر وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے ۔۔۔، جبکہ بغلوں کے بال نوچ کر صاف کرنا متفقہ طور پر مسنون ہے، اگر کوئی شخص بال نوچ کر بغل صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کے لیے بال نوچ کر ہی صاف کرنا افضل ہے، تاہم بغلوں کی صفائی بالوں کو مونڈ کر یا بال صفا پاؤڈر سے کی جا سکتی ہے۔
ایک بار یونس بن عبد الاعلی کہتے ہیں کہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس گیا تو آپ کے پاس نائی موجود تھا جو آپ کی بغلیں استرے سے مونڈ کر صاف کر رہا تھا۔ اس پر امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے علم ہے کہ بغلوں کو صاف کرنے کے لیے سنت طریقہ بالوں کو نوچنے کا ہی ہے، لیکن مجھ سے تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔" ختم شد
" شرح مسلم " از نووی: (3/149)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب